سرینگر///
عید الاضحیٰ کی آمد آمد ہے ، مگر وادی کشمیر میں اس بار نہ بازاروں میں وہ روایتی چہل پہل ہے اور نہ ہی خریداروں کا وہ ہجوم جو عید سے پہلے عام طور پر نظر آتا تھا۔
خاص طور پر شہر خاص اور دیگر علاقوں کے تاجر و دکاندار اس بار کی عید کو ‘سب سے مایوس کن’ قرار دے رہے ہیں، جنہیں حالیہ پہلگام حملے اور اس کے بعد پیدا شدہ غیر یقینی صورتحال نے گہری معاشی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے ۔
شہر خاص کے معروف تجارتی مرکز جامع مسجد مارکیٹ کے دکاندار ریاض احمد نے یو این آئی سے گفتگو کے دوران بتایا ’’گزشتہ عیدوں کے مقابلے میں اس بار خریداروں کی تعداد نہایت کم ہے ، دکانوں پر ویرانی چھائی ہوئی ہے اور تاجر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد پیدا شدہ فضا نے عام لوگوں کو بازاروں سے دور کر دیا ہے اور مجموعی خریداری میں کم از کم۵۰فیصد کمی واقع ہوئی ہے ۔
اسی مارکیٹ میں ریڈی میڈ کپڑوں کا کاروبار کرنے والے ایک اور دکاندار نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ عید قریب ہے لیکن خریدار بہت کم آ رہے ہیں۔ اس کے پیچھے صرف کشیدہ حالات ہی نہیں بلکہ کچھ مقامی عناصر کی خود غرضی بھی ہے جو سوشل میڈیا پر لالچ دے کر لوگوں کو مخصوص دکانوں کی جانب راغب کر رہے ہیں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ سوشل میڈیا، خاص طور پر فیس بک پر چند افراد لوگوں کو ‘تحائف’ اور ‘رعایت’ کی آڑ میں مخصوص دکانوں پر کپڑے لانے کی ترغیب دے رہے ہیں، جس کے خلاف تاجروں نے متعلقہ پولیس اسٹیشن میں شکایت بھی درج کی، اگرچہ مذکورہ فیس بک ایڈمن نے بعد میں معافی مانگ لی، مگر وہ اب بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
عید کے موقع پر قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت ہمیشہ ایک خاص دلچسپی کا مرکز ہوتی ہے ، مگر اس بار عید گاہ سری نگر میں بھی حالات مایوس کن ہیں۔ چرار شریف سے آئے بیوپاری نذیر بڈانہ کا کہنا ہے ’’ہم چار دن سے یہاں بیٹھے ہیں مگر ابھی تک ایک بھی بھیڑ فروخت نہیں ہوئی‘‘۔
ان کا شکوہ تھا کہ مقامی لوگ زیادہ تر راجستھان اور ہریانہ سے آئے بیوپاریوں سے جانور خرید رہے ہیں، جب کہ ہم جو خود یہاں کشمیر میں بھیڑ پالتے ہیں، ہمیں کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔
نذیر بڈانہ کا کہنا تھا کہ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو وہ خالی ہاتھ واپس جانے پر مجبور ہوں گے ، جس سے ان کے سال بھر کی محنت ضائع ہو جائے گی۔ایک اور بیوپاری طابش احمد نے بھی اس صورتحال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پہلگام حملے کے بعد یہاں معاشی مندی چھا گئی ہے ۔ خریدار بہت کم ہیں اور جو آ بھی رہے ہیں وہ قیمتیں پوچھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وادی کے بازاروں میں اس وقت صرف کھانے پینے کی اشیا اور بیکری دکانوں پر ہی کچھ حد تک رش دیکھنے کو مل رہا ہے ، جب کہ ملبوسات، جوتے ، اور دیگر عید کی خریداری سے جڑے شعبے تقریباً خالی نظر آ رہے ہیں۔
تاجروں نے حکومت اور عوام دونوں سے اپیل کی ہے کہ وہ کشیدہ حالات کے باوجود مقامی بازاروں پر اعتماد کریں اور خاص طور پر مقامی بیوپاریوں سے قربانی کے جانور خرید کر ان کی معاشی مدد کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو کشمیر کا روایتی عید کاروبار ختم ہو جائے گا۔