ممبئی//
تجربہ کار ہندوستانی آل راؤنڈر رویندر جڈیجہ نے کہا کہ انہوں نے کبھی ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا اور ہمیشہ یہ مانتے تھے کہ وہائٹ بال کرکٹ (محدود اووروں کی کرکٹ)ان کی مضبوطی ہے۔ انہوں نے کہا’’جب میں نے کرکٹ کھیلنا شروع کیا تھا تو مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں ٹیسٹ کرکٹ میں ہندوستان کیلئے اتنے میچ کھیلوں گا۔ میں ہمیشہ یہ مانتا تھا کہ وہائٹ بال کرکٹ میری مضبوطی ہے اور میں خود کو وہیں قائم کرنا چاہتا تھا۔ میں محسوس کرتا تھا کہ ٹیسٹ کرکٹ صرف بہت مخلص اور سینئر کھلاڑی ہی کھیل سکتے ہیں۔ ایسی یہ شروع میں میری ذہنیت تھی۔ ‘‘
جڈیجہ کے کریئر کو سنوارنیمیں ۲مہندر کا اہم رول!
رویندر جڈیجہ نے انکشاف کیا کہ ان کے شاندار کرکٹ سفر میں ۲سب سے زیادہ بااثر افراد کا تعلق بہار سے ہے اور دونوں کا پہلا نام مہندر ہے۔ روی چندرن اشون کے ساتھ ایک پوڈ کاسٹ میں جڈیجہ نے کہا کہ ان کا کرکٹ سفر ۲ مہندر کے درمیان ہے، ان کے بچپن کے کوچ مہندر سنگھ چوہان اور ان کے مینٹور مہندر سنگھ دھونی۔ رویندر جڈیجہ نے کہا کہ میں نے ۸۔ ۹سال کی عمر میں جام نگر میں `’کرکٹ بنگلہ‘ نام کے گراؤنڈ پر کھیلنا شروع کیا تھا۔ میرے کوچ، جو ابھی تک اسی گراؤنڈ پر ٹریننگ دے رہے ہیں، کا تعلق بہار سے ہے اور ان کا نام مہندر سنگھ چوہان ہے۔ میں نے یہ بات ماہی بھائی کو بھی بتائی کہ میرے کرکٹ سفر میں ۲ مہندر، مہندر سنگھ چوہان اور مہندر سنگھ دھونی کا خاص کردار ہے۔
رویندر جڈیجہ نے اپنے کوچ کے بارے میں مزید بتایا کہ وہ ایک پولیس افسر ہیں، ان کی سوچ یہ تھی کہ ایک کھلاڑی کو اپنی فٹنس کے عروج پر ہونا چاہیے۔ ان کا خیال تھا کہ بلے بازی اور گیندبازی کو سنبھالا جا سکتا ہے لیکن فٹنس سب سے اہم ہے اور اس کیلئے بہت زیادہ رننگ کرنی پڑتی ہے۔ میری فٹنس اور فیلڈنگ کی مہارت کا سہرا جام نگر میں ۱۵۔۲۰کلومیٹر کی روزانہ کی دوڑ کو جاتا ہے۔ پوڈ کاسٹ کے دوران، اشون نے جڈیجہ سے مہندر سنگھ دھونی کو ایک لفظ میں بیان کرنے کو کہا، جس پر جڈیجہ نے جواب دیا’’ ان کی عظمت کو ایک لفظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ وہ سب سے اوپر ہیں۔ ‘‘ واضح رہے کہ رویندرجڈیجہ اور اشون وہ ۲ کھلاڑی ہیں جو کئی اہم مواقع پر دھونی کے پسندیدہ گیند باز رہے ہیں، جنہوں نے نہ صرف ہندوستان بلکہ چنئی سپر کنگز کی کامیابی میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔
اس پوڈ کاسٹ میں رویندر جڈیجہ نے ہندوستان کے سب سے کامیاب ٹیسٹ کپتان وراٹ کوہلی کے بارے میں بھی بات کی، جو حال ہی میں ٹیسٹ فارمیٹ سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ ۶۳سالہ جڈیجہ نے بتایا کہ وہ کون سی خاصیت تھی جس نے کوہلی کو دوسروں سے الگ کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کا مثبت رویہ ہے – خاص طور پر ٹیسٹ میں۔ وراٹ کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ہمیشہ سے چاہتے تھے کہ ٹیم ٹیسٹ میچ میں ۲۰وکٹیں لے۔ وہ کبھی ہار نہیں مانتے، چاہے ۳ گھنٹے کا سیشن ہو یا ۴۵اوور باقی ہوں، وہ پھر بھی مخالف ٹیم کی تمام ۱۰وکٹیں لینا چاہتے تھے۔