سرینگر//
وادیٔ کشمیر میں ان دنوں چیری فصل تیار ہے اور کسان اس کو درختوں سے اتار کر ڈبوں میں پیک کرکے بازاروں میں منتقل کرنے میں مصروف ہیں تاہم وہ امسال اس فصل کی آمدنی سے مطمئن نظر نہیں آ رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ رواں سال بازاروں میں شدید مندی نے ان کے لیے معاشی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔
کشمیر کی گرمائی راجدھانی سری نگر کے مضافاتی علاقوں جن میں نیو تھید ہارون، دارا، دھنہ ہامہ اور چھتر ہامہ شامل ہیں، میں چیری کے باغات کافی تعداد میں موجود ہیں، جہاں ہر سال لاکھوں روپے مالیت کی چیری فصل تیار ہوتی ہے تاہم کاشتکاروں کے مطابق اس سال خریدار نہ ہونے کے برابر ہیں اور قیمتیں گذشتہ برسوں کی نسبت کافی کم ہیں۔
وادی میں چیری کی فصل ماہ مئی کے وسط میں تیار ہو کر بازاروں میں دستیاب ہوتی ہے اور پھر ماہ جولائی کے وسط تک اس کا سیزن رہتا ہے ۔ اسٹرا بیری کی طرح اس فصل کی عمر بھی بہت محدود ہے ۔
سرینگر کے ایک معروف چیری کاشتکار محمد عمر نے یو این آئی کو بتایا’’ہم نے پچھلے سال جو چیری۲۰۰سے۲۵۰ روپے فی کلو فروخت ہوتی تھی، وہ امسال بمشکل۱۰۰سے۱۲۰روپے فی کلو میں بکتی ہے ، وہ بھی اگر خریدار مل جائے ‘‘۔
عمر نے کہا کہ مارکیٹ تک رسائی، ٹرانسپورٹ کی لاگت، پیکیجنگ اور لیبر چارجز پہلے ہی ہمارے منافع کو کھا جاتے ہیں، اب اگر مارکیٹ ہی مندا ہے تو ہم کیسے گزارہ کریں؟
ان کا مزید کہنا تھا’’مارکیٹ بالکل ٹھپ ہے ۔ پہلگام واقعے کے بعد سیاحت ختم ہو کر رہ گئی ہے ،سیاح شوق سے چیری کھاتے تھے ، سیاحوں کی آمد میں نمایاں کمی سے چیری کی خریداری بھی از حد متاثر ہوئی ہے ‘‘۔
عمر نے کہا کہ اس وقت مارکیٹ میں چیری کے ریٹ اتنے کم ہیں کہ ہم مزدوروں کی مزدوری اور جراثیم کش ادویات کی قیمت بھی ادا نہیں کر پا رہے ہیں‘‘۔
اس کاشتکار نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو کسانوں کی لاگت کا تخمینہ لگانے کیلئے ایک سروے ٹیم تشکیل دینی چاہیے تاکہ چیری کی مناسب ریٹ مقرر کیا جا سکے ۔
عمر نے کہا’’اس وقت چیری کی فصل گھاٹے میں ہے ، کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہے جو اس فصل کی آمدنی آتی ہے اس سے زیادہ اس کو تیار کرکے بازاروں تک پہنچانے کا خرچہ آتا ہے ،حکومت کو دیکھنا چاہیے کہ زمیندار کو کتنی لاگت آتی ہے ، تبھی ریٹ فکس کرنا چاہیے ‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چیری کے تین گریڈ ہوتے ہیں، جو پہلے۲۰۰روپے فی ڈبہ فروخت ہوتے تھے ، آج بمشکل۱۰۰روپے میں بک رہے ہیں۔’ڈبل چیری‘فیکٹری کو دے رہے ہیں، مگر وہ بھی اچھے ریٹ نہیں دے رہے ۔
عمرنے کہا کہ۲۰۱۱میں ایک ڈبل چیری کا ڈبہ ساڑھے تین سو روپے میں فروخت ہوتا تھا، جب کہ اب وہی۱۰۰سے۱۲۰روپے فی ڈبہ میں بک رہا ہے ۔
چیری کی فصل سے وابستہ کسانوں اور متعلقہ انجمنوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر مارکیٹ انٹروینشن اسکیم (ایم آئی ایس) متعارف کرائے تاکہ چیری جیسی نازک فصل کو نقصان سے بچایا جا سکے کیونکہ چیری ایک نازک اور جلد خراب ہونے والا پھل ہے ، جسے وقت پر بازار پہنچانا بہت ضروری ہوتا ہے ۔
حکومت کا کہنا ہے کہ۳جون سے جموں کے کٹرا اسٹیشن سے ممبئی تک چیری سے لدی پہلی ریلوے کارگو گاڑی روانہ ہوگی، جو۲۴ٹن چیری لے جائے گی۔ اس اقدام کو چیری شعبے کی بحالی کیلئے اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے ۔ تاہم کسانوں کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات کا اثر تبھی ہو گا جب انہیں فوری طور پر قیمتوں میں استحکام دیا جائے ۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے بروقت مداخلت نہ کی تو نہ صرف چیری پیداوار متاثر ہوگی بلکہ ہزاروں کنبے جو اس شعبے پر انحصار کرتے ہیں، معاشی بحران کا شکار ہو جائیں گے ۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کشمیر میں چار اقسام کی چیری تیار ہوتی ہے جن میں ڈبل، مشری، مخملی اور اٹلی شامل ہے ۔
ماہرین طب کے مطابق چیری بھی دوسرے میوہ جات کی طرح صحت کے لئے انتہائی مفید ہے ۔