اوڑی//
شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے سرحدی قصبہ اوڑی کے دیہات میں گرچہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق کے بعد خاموشی طاری ہے لیکن لوگوں میں خوف اور غیر یقینی صورتحال مسلسل باقی ہے جو احساس تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے بنکروں کی تعمیر کی مانگ کر رہے ہیں۔
سرحدوں پر فائرنگ اور گولہ باری کے حالیہ تبادلے جس نے خاص طور پر ۷مئی کے بعد سے شدت اختیار کی، نے ماضی کے تشدد کی یادوں کو تر و تازہ کر دیا ہے۔گرچہ گذشتہ پندرہ دنوں کے دوران ہونے والی گولہ باری نے بڑے پیمانے پر خوف و ہراس پھیلایا تاہم اس کے نتیجے میں نسبتاً کم ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اوڑی میں سرحد پار سے گولہ باری کی وجہ سے ایک خاتون کی جان چلی گئی۔
سال۲۰۰۳ کے جنگ بندی معاہدے کے بعد سے، اوڑی میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر زیادہ تر خاموشی رہی۔ تاہم۲۰۱۶ میں ایک فوجی کمیپ پر ملی ٹنٹ حملے نے اس خاموشی کو توڑ دیا تھا لیکن حالیہ گولہ باری، جس سے قریب دو دہائیوں پر محیط سکون پاش پاش ہوگیا، نے رہائشیوں کو کسی دیرپا امن کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا ہے۔
کمل کوٹ سے تعلق رکھنے والے اخلاق احمد نے بتایا’’ہم بہت ہی آرام سے زندگی گزر بسر کر رہے تھے اور گولہ باری کے تبادلوں کے واقعات بھول گئے تھے، زیر زمین بنکروں کی کوئی ضرورت تھی کیونکہ امن کا ماحول چھایا ہوا تھا لیکن آج ایک بار پھر ماحول خراب ہے، سرحدوں پر لڑائی ناگزیر ہے کیونکہ جنگ بندی کے پیچھے اخلاص مفقود ہے‘‘۔
انہوں نے کہا’’اب ہماری ترجیح حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے انفرادی سطح پر بنکر تعمیر کرنا ہے کیونکہ موجودہ خاموشی کا کوئی اعتبار نہیں ہے‘‘۔
قصبہ اوڑی، جو زائد از ڈیڑھ لاکھ لوگوں کا مسکن ہے، میں پہلی بار سال۱۹۹۰ کے ابتدا میں بنکر تعمیر کئے گئے تھے تاہم ان میں سے ۸؍اکتوبر ۲۰۰۸کے خوفناک زلزلے سے کئی بنکر منہدم ہوئے تھے جن میں سے آج کچھ ہی باقی ہیں۔
جاوید احمد، جو ایک سرکاری ملازم ہیں، نے بتایا’’پہلے سرحدی دیہات کے لوگوں نے نافرادی سطح پر اپنی حفاظت کے لئے بنکر بنائے تھے لیکن آج ہر پنچایت حلقے میں مشکل سے ہی ایک یا دو بنکر ہیں اور گولہ باری کے دوران ان میں وقت پر ان تک پہنچنا نا ممکن ہے‘‘۔
احمد نے کہا’’فی الوقت ہمیں ترجیحی بنیادوں پر بنکروں کی ضرورت ہے‘‘۔ان کا کہنا تھا’’گذشتہ حکومتوں نے بنکر بنانے کے وعدے تو کئے لیکن ان وعدوں کو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا‘‘۔
احمد نے کہا’’طویل عرصے تک سرحد پر امن قائم رہنے سے لوگ غلط فہمی کا شکار ہوئے، ہم بنکروں کی تعمیر کی ضرورت سے گافل ہوگئے یہ سوچ کر یہ امن دائمی ہے لیکن یہ ہماری غلط فہمی تھی‘‘۔انہوں نے کہا’’شاید ان دو ممالک میں کبھی دائمی دوستی قائم نہیں ہوسکتی ہے اور ایسا بھی ہے ہم س طرح کی صورتحال سے مستقبل میں بھی روبرو ہوسکتے ہیں‘‘۔
سلی کوٹ، چورنڈا، ہتھ لنگا‘بالکوٹ، صورا، بڈگرہان، تلواری، تاجل، اور کئی دیگر سمیت کچھ ایسے گاؤں میں چند کمیونٹی بنکر باقی ہیں۔
رکن اسمبلی اوڑی سجاد شفیع نے بھی علاقے میں بنکروں کی تعمیر پر زور دیا ہے۔ان کا کہنا ہے’’اوڑی میں لوگوں کو اب بنکروں کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی روٹی کی ہے، حالیہ گولہ باری کے نتیجے میں زائد از۲۵ ہزار لوگوں کو نقل مکانی اختیار کرنا پڑی‘‘۔
رکن اسمبلی نے کہا اب ہماری یہ ترجیح ہونی چاہئے کہ ہر گھر کے لئے ایک بنکر بنایا جائے۔
شفیع نے کہا’’میں نے یہ تمام راتیں اوڑی میں گذاریں لہذا میں خوف کو اچھی طرح سے محسوس کر سکتا ہوں، گولہ کی ہر گن گرج سے مکانوں کے دیوار لرزتے تھے‘‘۔
اوڑی میں تعینات ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ یہاں زیر زمین بنکروں کی اشد ضرورت ہے۔انہوں نے کہا’’ہم یہاں بنکروں کی تعمیر کی تجویز ضرور پیش کریں گے‘‘۔
جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے جب ۹مئی کو اوڑی کا دورہ کیا تو ان سے وہاں لوگوں نے بنکروں کی تعمیر کا مطالبہ کیا۔