جموں//
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے سائے میں رہتے ہوئے جموں خطے میں بین الاقوامی سرحد اور لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب رہنے والے دیہاتیوں کو کسی بھی ممکنہ کشیدگی کیلئے زیر زمین بنکروں کو صاف کرنے ، باڑ کے ساتھ فصلوں کی کٹائی کرنے اور خود کوا یسی کسی بھی ممکنہ صورتحاکو تیار رکھنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔
پاکستانی فوجیوں کی فائرنگ سے رہائشیوں کی حفاظت کے لئے حکومت کی طرف سے سالوں سے ہزاروں زیر زمین محفوظ پناہ گاہیں تعمیر کی گئی ہیں۔
عہدیداروں نے بتایا کہ اگرچہ ۲۰۲۱ کے بعد سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے واقعات کی تعداد کم رہی ہے ، جب دونوں ممالک نے جنگ بندی معاہدے کی تجدید کی تھی ، لیکن پہلگام دہشت گردانہ حملوں کے بعد سرحدی رہائشیوں میں حفاظتی خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
آر ایس پورہ سیکٹر کے ٹریوا گاؤں کے سابق سرپنچ بلبیر کور نے کہا’’کوئی نہیں جانتا کہ آگے کیا ہوگا۔ ہم نے زیر زمین بنکر تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ سرحد پار سے گولہ باری یا فائرنگ کی صورت میں ہم خود کو بچا سکیں‘‘۔
بھارت کی پاکستان کے ساتھ ۳۳۲۳کلومیٹر طویل سرحد ہے جس میں سے۲۲۱کلومیٹر بین الاقوامی سرحد اور۷۴۴ کلومیٹر لائن آف کنٹرول جموں کشمیر میں آتی ہے۔
۲۵فروری۲۰۲۱کو، ہندوستان اور پاکستان نے جموں و کشمیر کی سرحدوں پر نئے سرے سے جنگ بندی کے نفاذ کا اعلان کیا، جو بین الاقوامی سرحد اور ایل او سی کے ساتھ رہنے والے لوگوں کے لئے ایک بڑی راحت کے طور پر سامنے آیا۔
ہندوستان اور پاکستان نے ابتدائی طور پر۲۰۰۳ میں جنگ بندی معاہدے پر دستخط کیے تھے ، لیکن پاکستان نے بار بار معاہدے کی خلاف ورزی کی اور ۲۰۲۰ میں۵ہزارسے زیادہ خلاف ورزیاں رپورٹ ہوئیں ، جو ایک سال میں سب سے زیادہ ہیں۔
سرحدی باشندوں کو پاکستانی گولہ باری سے بچانے کیلئے مرکز نے دسمبر ۲۰۱۷ میں جموں، کٹھوعہ اور سانبا کے پانچ اضلاع میں۱۴ہزار۴۶۰؍ انفرادی اور کمیونٹی بنکروں کی تعمیر کو منظوری دی تھی، جس میں ایل او سی پر بین الاقوامی سرحد اور پونچھ اور راجوری گاؤوں کے ساتھ واقع گاؤوں کا احاطہ کیا گیا تھا۔ بعد ازاں حکومت نے کمزور آبادی کے لئے مزید ۴ہزار بنکروں کی منظوری دی تھی۔
بنکر صفائی مہم کی نگرانی کر رہی کور نے کہا کہ وہ کسی بھی صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں اور فورسز کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔
کور کاکہنا تھا’’ہم چاہتے ہیں کہ ہماری حکومت سرحد پار بیٹھے دہشت گردوں اور ان کے آلہ کاروں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے۔ ہم ان تمام لوگوں کا خاتمہ چاہتے ہیں جنہوں نے نہتے اور بے گناہ شہریوں کا بہیمانہ قتل کیا‘‘۔
باہر، کھیتوں سے فصل کی کٹائی کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ایک دیہاتی سیوا رام نے کہا کہ جب عورتیں بنکروں کی صفائی میں مصروف ہیں، تو مردوں نے گندم کی کھڑی فصلوں کی کٹائی کو کچھ دن آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
رام نے کہا’’ہم ہتھیاروں کے بغیر فوجی ہیں اور دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیشہ تیار ہیں‘‘۔
عہدیداروں نے بتایا کہ سانبا اور کٹھوعہ اضلاع میں بین الاقوامی سرحد کے قریب سرحدی گاؤوں اور پونچھ اور راجوری کے جڑواں سرحدی اضلاع سے بھی اسی طرح کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
پونچھ میں ایل او سی کے قریب سلوتری گاؤں کے رہائشی محمد فاروق نے کہا’’حالات کشیدہ ہیں اور ہم ہمیشہ کی طرح پاکستان کو سبق سکھانے کیلئے اپنے فوجیوں کے پیچھے مضبوطی سے کھڑے ہیں‘‘۔
جموں خطے کی سرحدیں پرامن رہی ہیں لیکن وادی کشمیر میں جمعرات سے دو راتوں سے جنگ بندی کی خلاف ورزی اں ہو رہی ہیں۔ تاہم سرحد پار سے ہونے والی فائرنگ میں کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
جنوبی کشمیر کے پہلگام کے بیسرن میں ۲۲ ؍اپریل کو سیاحوں پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں۲۶ افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں زیادہ تر سیاح تھے جس کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعرات کو متنبہ کیا تھا کہ قاتلوں کا ’زمین کے آخری سرے تک‘ تعاقب کیا جائے گا کیونکہ انہوں نے ’ہر دہشت گرد اور ان کے حامیوں کی شناخت، ان کا سراغ لگانے اور انہیں سزا دینے‘ کا وعدہ کیا تھا۔
اس حملے سے سرحد پار روابط کے پیش نظر بھارت نے بدھ کے روز متعدد تادیبی اقدامات کا اعلان کیا تھا جن میں ۶۵سال پرانے سندھ طاس معاہدے کی معطلی، اٹاری زمینی سرحد عبور کو بند کرنا اور پاکستانی فوجی اتاشی وں کو ملک بدر کرنا شامل ہے۔ نئی دہلی نے اٹاری زمینی سرحد کے ذریعے ملک میں داخل ہونے والے تمام پاکستانیوں سے یکم مئی تک ملک چھوڑنے کو کہا ہے۔
اس کے جواب میں پاکستان نے جمعرات کے روز اعلان کیا تھا کہ وہ تمام بھارتی ایئرلائنز کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر رہا ہے اور تیسرے ممالک سمیت نئی دہلی کے ساتھ تجارت معطل کر رہا ہے۔
پاکستان نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کو بھی مسترد کردیا اور کہا کہ معاہدے کے تحت پاکستان کے پانی کے بہاؤ کو روکنے کے کسی بھی اقدام کو ’جنگی کارروائی‘ کے طور پر دیکھا جائے گا۔ (ایجنسیاں)