نئی دہلی//سپریم کورٹ نے ویر ساورکر کے خلاف مبینہ متنازعہ ریمارکس کے سلسلے میں کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو سمن جاری کرنے والے نچلی عدالت کے حکم پر جمعہ کو روک لگا دی۔
مسٹر گاندھی کو ان کی عرضی پر یہ راحت دیتے ہوئے جسٹس دیپانکر دتا اور جسٹس منموہن کی بنچ نے ان سے کہا کہ وہ مجاہدین آزادی کے خلاف کوئی غیر ذمہ دارانہ تبصرہ کرنے سے باز رہیں۔
اتر پردیش کے لوک سبھا رکن مسٹر گاندھی نے ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
بنچ نے سینئر وکیل اے ایم سنگھوی سے کہاکہ "آپ اپنے مجاہد آزادی کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں۔ انہیں کوئی غیر ذمہ دارانہ بیان نہیں دینا چاہئے ۔’’
سپریم کورٹ نے مسٹر سنگھوی کو بتایا کہ مہاراشٹر میں ساورکر کی پوجا کی جاتی ہے ۔ راہل گاندھی کو ایسا بیان نہیں دینا چاہئے کیونکہ وہ ایک پارٹی کے سیاسی لیڈر ہیں۔
بنچ نے راہل گاندھی کے وکیل سے پوچھا کہ”کیا آپ کے مؤکل (راہل گاندھی) جانتے ہیں کہ مہاتما گاندھی نے وائسرائے کو مخاطب کرتے ہوئے ‘آپ کے وفادار خادم’ کے الفاظ استعمال کیے تھے ؟ کیا آپ کے مؤکل کو معلوم ہے کہ ان کی دادی (اندرا گاندھی) نے بھی وزیر اعظم رہتے ہوئے سجن (ساورکر) کی تعریف کرتے ہوئے خط بھیجا تھا۔ جب آپ کو تاریخ معلوم ہے تو آپ مجاہد آزادی کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتے ۔”
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ وہ ان کے خلاف ہتک عزت کی کارروائی پر روک لگائے گی لیکن انہیں مزید ایسے بیانات دینے سے روکے گی۔
بنچ نے مسٹر سنگھوی سے کہاکہ "واضح طور پر مزید کوئی بھی بیان ہمارے ذریعہ از خود لیا جائے گا اور اس میں منظوری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے ۔ ہم آپ کو مجاہد آزادی کے بارے میں کچھ (غلط) کہنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ انہوں نے ہمیں آزادی دلائی ہے ۔’’
عدالت عظمیٰ نے کانگریس لیڈر کے بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے انہیں واضح الفاظ میں کہا کہ اگر انہوں نے مستقبل میں اس طرح کے ریمارکس کئے تو انہیں اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے ۔
مسٹر گاندھی نے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس حکم کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس نے ونائک دامودر ساورکر کے خلاف توہین آمیز ریمارکس کے معاملے میں ان کے خلاف سمن کو منسوخ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔’’
کانگریس کے سابق صدر مسٹر گاندھی نے 17 نومبر 2022 کو مہاراشٹر کے اکولا ضلع میں اپنی ‘بھارت جوڑو’ یاترا کے دوران ایک ریلی میں مبینہ طور پر ریمارکس دیا تھا کہ ساورکر ایک برطانوی نوکر تھے جنہیں پنشن ملتی تھی۔
مسٹر گاندھی کے ریمارکس سے ناراض ہوکر ایڈوکیٹ نریپیندر پانڈے نے دسمبر 2024 میں لکھنؤ کی ایک عدالت میں ان ( راہل گاندھی) کے خلاف شکایت درج کروائی، جس نے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی کو سمن جاری کیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ ان کے تبصروں سے سماج میں نفرت اور بغض پھیل گیا ہے ۔
اس کے بعد مسٹر گاندھی نے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ سے رجوع کیا، جہاں ان کی عرضی کو خارج کر دیا گیا۔
الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کے جسٹس سبھاش ودیارتھی نے 4 اپریل 2025 کو مسٹر گاندھی کی عرضی پر غور کرنے سے انکار کر دیا تھا، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ ان کے پاس ضابطہ فوجداری کی دفعہ 397 (ٹرائل کورٹ کے حکم میں ترمیم کرنے کا اختیار) کے تحت سیشن جج سے رجوع کرنے کا اختیار ہے ۔
ایڈوکیٹ پانڈے نے اپنی شکایت میں مسٹر گاندھی پر ریلی کے دوران جان بوجھ کر ساورکر کی توہین کرنے کا الزام لگایا تھا۔ شکایت کنندہ نے الزام لگایا کہ گاندھی کے ریمارکس ساورکر کو بدنام کرنے کی منصوبہ بند سازش کا حصہ تھے ۔