اسمبلی میں تحریک التواء کو قبول نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ یہ بل پارلیمنٹ سے منظور ہوا تھا:وزیر اعلیٰ
سرینگر//
وزیر اعلیٰ‘ عمر عبداللہ نے آج کہا کہ انہیں امید ہے کہ جموں وکشمیر کا ریاستی درجہ بہت جلد بحال ہوجائے گا اور مناسب وقت آگیا ہے۔
وہ ضلع پلوامہ میں ایک پل کا افتتاح کرنے کے بعد نامہ نگاروں سے بات کر رہے تھے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا’’ہمیں لگتا ہے کہ مناسب وقت آ گیا ہے، اسمبلی انتخابات کے چھ مہینے گزر چکے ہیں۔ (مرکزی وزیر داخلہ امت) شاہ یہاں آئے، میری ان سے الگ ملاقات ہوئی، اچھی ملاقات ہوئی… مجھے اب بھی امید ہے کہ جموں و کشمیر کو جلد ہی اپنی ریاست کا درجہ واپس مل جائے گا‘‘۔
اپوزیشن کے اس الزام پر کہ حکمراں پارٹی نے وقف ترمیمی قانون پر بحث میں خلل ڈالا، انہوں نے کہا کہ تحریک التواء کو قبول نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ یہ بل پارلیمنٹ سے منظور ہوا تھا۔
اسپیکر نے آخری دن سب کچھ واضح کر دیا۔ ’’شاید ارکان کی غلطی یہ تھی کہ وہ تحریک التوا لے کر آئے۔ تحریک التوا صرف جموں و کشمیر حکومت کے کاموں پر بحث کے لئے لائی جاتی ہے کیونکہ حکومت کو جواب دینا ہوتا ہے‘‘۔
وزیرا علیٰ نے کہا’’مجھے بتائیں کہ اگر تحریک التواء منظور ہو گئی ہوتی تو ہم کیسے جواب دیتے کیونکہ وقف بل ہمارے ذریعے نہیں لایا گیا تھا۔ اسے مرکز نے پارلیامنٹ میں منظور کیا تھا‘‘۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ اسمبلی میں مختلف قواعد کے تحت ایک قرارداد منظور کی جاسکتی ہے۔
ان کاکہنا تھا’’لیکن اب یہ گزر چکا ہے۔ نیشنل کانفرنس سمیت کئی پارٹیوں نے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے اور سپریم کورٹ کے سامنے اپنے خیالات رکھے ہیں۔ اب ہم دیکھیں گے کہ سپریم کورٹ کیا کہتا ہے‘‘۔
پل کے افتتاح پر تبصرہ کرتے ہوئے عمرعبداللہ نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ چرار شریف کو جنوبی کشمیر سے جوڑنے والا پل ۲۰۱۴ کے سیلاب میں بہہ جانے کے بعد ۱۱سال تک دوبارہ تعمیر کیا گیا۔
ان کاکہنا تھا’’یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس کی تعمیر نو میں کافی وقت لگا۔ یہ پل ۲۰۱۴ کے سیلاب میں بہہ گیا تھا اور اسے دوبارہ تعمیر کرنے میں ۱۱سال لگے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ پل صرف ہمارے ذریعہ کھولا جانا تھا۔ یہ پل جنوبی کشمیر کو چرار شریف سے جوڑنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔‘‘
اس سے پہلے ایک عوامی جلسے سے خطاب کے دوران عمر عبداللہ نے کہا کہ مرکز کے زیر انتظام علاقے (یوٹی) میں وزیر اعلیٰ کو کام کرنے میں شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے ، کیونکہ افسران ہر کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ’دس بہانے‘تلاش کرتے ہیں۔۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یوٹی کے نظام میں وزیر اعلیٰ کے پاس محدود اختیارات ہوتے ہیں اور اکثر اوقات سرکاری افسران تعاون کے بجائے رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔
عمرعبداللہ نے کہا’’ریاست اور یوٹی میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ ریاست میں وزیر اعلیٰ کے پاس مکمل اختیارات ہوتے ہیں، جبکہ یوٹی میں افسران ہر معاملے میں رکاوٹ ڈالنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ حکومت جلد ہی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے ایک قانون متعارف کروائے گی۔
عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ ہماچل پردیش میں صنعتوں اور ہوٹلوں کے قیام کے وقت لازمی ہوتا ہے کہ۷۰فیصد ملازمتیں مقامی لوگوں کو دی جائیں، اور اگر کوئی اس قانون پر عمل نہ کرے تو اس کی فیکٹری بند کی جاتی ہے ۔
وزیر اعلیٰ نے سوال اٹھایا ’’اگر یہ قانون ہماچل کے لیے موزوں ہے تو جموں و کشمیر کو اس سے محروم کیوں رکھا جا رہا ہے ؟‘‘
مائننگ کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ دریاوں پر سب سے پہلا حق مقامی لوگوں کا ہونا چاہیے تاکہ وہ ریت اور بجری نکال کر روزگار حاصل کر سکیں۔