کشمیر میں دو بیماریاں ہیں … …ایڈز اور سرطان سے بھی خطر ناک کہ ان بیماریوں نے پوری قوم کشمیر کا اپنی گرفت میں لیا ہے ۔ یہ لاعلاج بیماریا ں نہیں اگر ہم ان کے علاج کیلئے تیار ہو جائیں ۔ ان میں سے اگر ایک بیماری کا بھی ہم علاج کرنے کیلئے تیار ہو جائیں گے تو اللہ میاں کی قسم دوسری بیماری خودبخود ٹھیک ہو جائیگی … ٹھیک کیا ہو جائیگی اس کا نام و شنان ہی نہیں رہے گا ۔یہ دو بیماریاں ہیں بے روز گاری اور ہر کسی میں سرکاری نوکری کی آرزو ‘ تمنا اور خواہش ۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے ‘ لیکن کشمیری جہاں نصف صدی پہلا تھا ‘ آج بھی وہیں ہے …اکیسویں صدی میں بھی بچوں کو تعلیم دینے کا ہمارا ایک ہی مقصد ہو تا ہے اور وہ ہے سرکاری ملازمت کا حصول… پڑھے لکھے نوجوانوں کو لگتا ہے تعلیم مکمل کرنے کے بعد سرکاری ملازمت پر ان کا حق ہے ‘ وہ اس کے مستحق ہیں ۔پڑھے لکھے نوجوانوں کی اکثریت کی یہی سوچ ہے اور وہ اس سے باہر کچھ اور سوچ نہیں سکتے ہیں ۔اس کے باوجود بھی کہ حکومت کیلئے ہر ایک کو نوکری دینا ممکن نہیں ہے‘گرچہ وہ اپنے سیاسی مقاصد کیلئے ہر گھر کے فرد کو نوکری دینے کا پر فریب وعدہ کرتی ہے ۔سرکاری ملازمت کے حصول کیلئے کوئی بھی کشمیری کسی بھی حد تک جا سکتا ہے ۔کشمیر ی یہ سوچ بھی نہیں سکتا ہے کہ سرکاری ملازمت کے بغیر بھی روز گار کمانے کے اور بھی کئی راستے ہیں ۔لیکن یہاں نوکری کا مطلب سرکاری ملازمت ہے اور کچھ نہیں ۔اور اس بات کو پورے کشمیری معاشرے نے آنکھیں بند کر کے تسلیم بھی کر لیا ہے ۔یہ سوچ ہمارے لئے اب ایک نفسیاتی بیماری بن گئی ہے جس کا علاج ممکن نظر نہیں آرہا ہے… کہ ہم اس سوچ سے باہر نہیں آنا چاہتے ہیں ‘ سرکاری نوکری کا بھوت ہم پر سوار ہو گیا ہے جو اترنے کا نام بھی نہیں لے رہا ہے ۔جس دن یہ بھوت اتر جائیگا … اس دن ہماری ان دونوں بیماریوں کا علاج ہو جائیگا … ورنہ یہ مرض بڑھتا جائیگا ۔ہے نا؟