نئی دہلی//
اپوزیشن نے آج لوک سبھا میں پیش کئے گئے وقف (ترمیمی) بل۲۰۲۵کو حکومت کی طرف سے لایا جانے والا آئین مخالف پالیسی کا نتیجہ قرار دیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ملک میں انتشار پھیلا رہی ہے اور سماج کو تقسیم کرنے کا کام کر رہی ہے ۔
کانگریس کے گورو گوگوئی نے اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو کی طرف سے ایوان میں بل پر بحث کرانے اور اسے منظور کرانے کے لیے پیش کردہ تحریک پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے آج کہا کہ اپوزیشن بھی چاہتی ہے کہ قانون میں ضروری ترامیم کی جائیں لیکن حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے اور وہ تقسیم کی سیاست میں ملوث ہے ۔
کانگریسی رکن لوک سبھا نے کہا کہ حکومت وقف بل کے حوالے سے کنفیوژن پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ملک کا آئین ہر فرد کے لیے برابری کو یقینی بنانے ، بنیادی حقوق کے تحفظ، وفاقی ڈھانچے کے تحفظ اور ملک کی سالمیت کی بات کرتا ہے لیکن حکومت کا یہ وقف بل آئین پر حملہ ہے اور اس کا مقصد انتشار پھیلا کر اور معاشرے کو تقسیم کرکے ووٹ بینک کو تحفظ فراہم کرنا ہے ۔
گوگوئی نے کہا کہ حکومت یہ کہہ کر کنفیوژن پھیلا رہی ہے کہ بل پر بڑے پیمانے پر بحث ہو چکی ہے جبکہ حکومت اس پر من مانی کرتی رہی اور ایوان میں وسیع بحث کی بات کر کے انتشار پھیلا رہی ہے ۔
کانگریس کے لوک سبھا رکن نے یہ بھی کہا کہ حکومت اس بل کے حوالے سے ہونے والی میٹنگز کے منٹس ایوان میں رکھے تو سچ سب کے سامنے آجائے گا۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ یہ بل اقلیتی امور کی وزارت نے نہیں بلکہ کسی اور وزارت نے تیار کیا ہے ، اس لیے اس میں اقلیتوں کے مفادات کے لیے دفعات نہیں رکھی گئی ہیں ۔
گوگوئی نے کہا کہ کوئی بھی شخص وقف کر سکتا ہے لیکن حکومت اس قانون کے ذریعے کسی شخص کا حق چھیننے کا کام کر رہی ہے ۔ یہ بل ملک کی سالمیت، سماج کے اتحاد، شہریوں کے بنیادی حقوق اور آئین کی روح کے خلاف ہے اور اس کے ذریعے حکومت مکمل طور پر انتشار پھیلا رہی ہے ۔
کانگریس کے لیڈر نے کہا کہ بل میں پہلے سے ہی یہ شرط موجود تھی کہ اس میں دو یا دو سے زیادہ خواتین اراکین ہو سکتی ہیں لیکن بی جے پی حکومت نے اسے صرف دو خواتین تک محدود کر دیا ہے ۔ حکومت یہ غلط فہمی پھیلا رہی ہے کہ وقف کی دفعات غلط ہیں لیکن حکومت اس میں جو دفعات بنا رہی ہے وہ پہلے سے موجود تھی پھر اس میں تبدیلی کیوں کی گئی؟ حکومت نے ریونیو رولز کو کمزور کر دیا ہے تاکہ وقف بورڈ مالی طور پر کمزور ہو جائے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی نظر ایک کمیونٹی کی زمین پر ہے جسے اس کے لوگوں نے عطیہ کیا ہے ۔
گوگوئی نے کہا کہ اس بل کے ذریعے حکومت ریاستوں کی طاقت کو کمزور کرنے کا کام کر رہی ہے ۔ اس کے ایک قانون میں ریاستوں کے لیے بنائے گئے دفعات کو ہٹا دیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت صرف ایک کمیونٹی کو الجھانا چاہتی ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو حکومت کو چاہئے کہ وہ دوسرے مذاہب کی جائیدادوں کے لئے بھی ایسا ایکٹ تیار کرے ۔
کانگریس کے لوک سبھا رکن نے کہا کہ اس کمیونٹی کے رہنماؤں نے ملک کے لیے قربانیاں دی ہیں اور ہندوستان کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اس کمیونٹی کے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جانی چاہئے جو ہندوستان چھوڑو تحریک میں سرگرم کردار ادا کرتے ہوئے جیلوں میں بند رہے ہیں۔ معاشرے کو تقسیم کرنے کا یہ حکومت کا ایک حربہ ہے اور وہ ہماری قوم پرستی کو اپنے مفادات اور خواہشات کے مطابق متعین کرنے کا کام کر رہی ہے ۔
گوگوئی نے کہا کہ حکومت نے دفعہ ۱۰۸کو ہٹا دیا ہے ۔ اس قانون میں ترمیم کے لیے کوائنٹ پارلیمانی کمیٹی ( جے پی سی ) کی تشکیل کی گئی تھی، لیکن اس حکومت نے جے پی سی میں پیراگراف وار بحث کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت آندھرا پردیش میں اس قانون کی دفعات کو ہٹانے پر کام کر رہی ہے ۔
بی جے پی کے رکن روی شنکر پرساد نے کہا کہ اگر وقف بل کے ذریعہ پسماندہ مسلمانوں کو بورڈ میں جگہ دی جارہی ہے تو کسی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر وقف اراضی کو لوٹا جا رہا ہے تو آئین اسے روکنے کا حق دیتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وقف کوئی مذہبی ادارہ نہیں ہے اور اگر اس ادارے کو دی گئی جائیداد کو لوٹا جا رہا ہے تو حکومت اس پر خاموش نہیں رہ سکتی۔
پرساد نے کہا کہ اگر وقف کے پاس بہت زیادہ د اثاثہ ہے تو بتایا جانا چاہئے کہ اس جائیداد کے ذریعے کتنی بیواؤں، غریبوں، یتیموں اور متاثرین کی مدد کی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کی حکومتیں اقتدار میں رہی ہیں لیکن طلاق ثلاثہ سے متاثر ہونے والی مسلم خواتین کے فائدے کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا گیا لیکن آج ان کی حکومت نے ملک میں تین طلاق سے متاثر ہونے والی خواتین کو راحت دی ہے اور انہیں قانونی حقوق دے کر ان کی زندگی کو خوشگوار بنایا ہے ۔
پرساد نے کہا کہ جب بی جے پی کی حکومت نے تین طلاق کا قانون بنایا تو ملک بھر کے کچھ مسلمان اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلم خواتین کو آزادی سے جینے کا حق ملے ، اس لیے وہ اس کی مخالفت کرتے رہے ۔ جب کشمیر سے آرٹیکل۳۷۰ہٹایا گیا تھا تو اس کی مخالفت بھی ہوئی تھی لیکن آج جموں و کشمیر میں ترنگا لہرا رہا ہے اور وہاں امن ہے ۔ وہاں کے لوگوں کو تمام حقوق مل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کہتی ہے کہ اس نے وقف بل میں کئی بار تبدیلیاں کی ہیں لیکن پھر بھی اس میں بہتری نہیں لائی جاسکی، اس سے صاف ظاہر ہے کہ کانگریس کا مقصد اقلیتوں کی خدمت نہیں بلکہ ووٹ بینک پر نظر ہے ۔
بی جے پی کے لیڈر نے کہا کہ اس بل میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر وقف کے سلسلے میں کوئی شکایت ہے تو لوگ اسے لے کر عدالت بھی جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کیرالہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کے عیسائی پریشان ہیں کیونکہ ان کی جائیداد ہتھیائی جارہی ہے اور وہ اس بل میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ یہ بل وقف املاک کیلئے سب کے لیے مفید ہونے کا راستہ کھولتا ہے ۔