تحریر:ہارون رشید شاہ
بات ہی کچھ ایسی ہے کہ ہمیں آج مسلسل دوسرے دن بھی پاکستان کے نوجوان وزیر خارجہ ‘ بلاول بھٹو کی بات کرنی پڑی … یقینا ہم ان کے مداح ہیں اور نہ ہمیں ان کے بارے میں باتیں کرنے کا کوئی شوق ہے… لیکن کیا کیجئے گا کہ بات ہی کچھ ایسی ہے کہ ان کے بارے میں آج بھی بات کرنی پڑی ۔ وہ کیا ہے کہ بھٹو نے روز گزشتہ کچھ باتیں کی تھیں… ہمسایہ ملک بھارت کے بارے میں کی تھیں ‘ دل نہیں بلکہ دماغ سے کی تھیں ‘ زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر باتیں کی تھیں … اس کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کی باتیں کی تھیں ‘ اس کے ساتھ معاشی تعلقات کو بڑھاوا دینے کی باتیں کی تھیں… اور وہ باتیں کی تھیں… جن پر عمل کرنے سے کسی اور کو نہیں بلکہ خود پاکستان کو ہی فائدہ ہو تا… لیکن کیا کیجئے گا کہ … کہ بلاول بھٹو شاید یہ بات بھول گئے تھے کہ … کہ پاکستان میں ایسی باتیں کرنا ممنوع ہے… ایسی باتیں وہاں نہیں کی جا سکتی ہیں… ایسی باتیں وہاں نہیں کی جاتی ہیں‘ امن ‘ دوستی اور مفاہمت جیسی باتیں وہاں کسی کو ہضم نہیں ہو تی ہیں…اور اس لئے نہیں ہو تی ہیں کیونکہ انہیں اس کی عادت نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے… ہوتی تو… تو بلاول بھٹو کی خود اپنی وزارت ان کے بیان کی وضاحت کے نام پر تردید نہیں کرتی … یہ نہیں کہتی کہ صاحب ایسا ویسا کچھ نہیں ہے … ہمارے وزیر نے کیا کہا اور کیا نہیں … اس کو طاق پر رکھ لیجئے کہ … کہ پاکستان کی بھارت کے بارے میں پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے… بالکل بھی نہیں آئی ہے… پاکستان کی بھارت کے بارے میں جو پالیسی تھی ‘ وہی ہے اور وہی رہے گی… اور یہ پالیسی کیا ہے؟اس پالیسی سے پاکستان نے آج تک کیا حاصل کیا ہے ؟ اس پالیسی سے پاکستان کا کیا بھلا ہوا ہے… اس پالیسی سے کیا اس کے دو حصے نہیں ہو گئے … اس پالیسی سے کیا کشمیریوں کے پاس جو کچھ بھی تھا اور… اور اللہ میاں کی قسم بہت کچھ تھا ‘ اس سب سے وہ محروم نہیں ہو گئے… اس پالیسی سے کشمیر میں تباہی نہیں مچ گئی ‘ کشمیریوں کو جان و مال سے ہاتھ نہیں دھونے پڑا … اپنے عزیز و اقارب کو کھونا نہیں پڑا…مختصر یہ ہے کہ اس پالیسی ‘ جسے پاکستان مدتوں سے گلے لگائے بیٹھا ہے… سے کسی کا بھلا نہیں ہوا اور… اور اسی بات کی نشاندہی بلاول بھٹو نے کی تو… تو انہیں اپنی ہی وزارت نے منہ بند رکھنے کو کہا…اور شاید ’سمجھایا‘ بھی ہو گا ۔ ہے نا؟