میڈم جی… میڈم محبوبہ جی کی پی ڈی پی اپنی کھوئی… کھوئی نہیں بلکہ لٹائی ہو ئی ساکھ کو بحال کرنے کیلئے کوشاں ہے… پی ڈی پی چاہتی ہے کہ اسے وہی پیار ‘وہی محبت اور اعتماد ملے جو لوگوں نے … کشمیریوں نے اسے دیا تھا … ایک دو دہائیوں پہلے دیا تھا … آنکھیں بند کرکے دیا تھا‘ یہ سوچے سمجھے بغیر دیا تھا کہ یہ جماعت کہاں سے آئی ‘ کیوں آئی …کس نے لایا اور کیوں لایا… یہ سوچے بغیر کشمیریوں نے اسے اپنی آنکھوں پہ بٹھایا… اُس دور میں بھی اگر کسی کی اے ‘ بی یا سی ٹیم ہونے کا لیبل لگانے کا چلن ہو تا… روایت ہو تی تو… تو یقینا پی ڈی پی پر بھی کسی کی اے‘ بی یا سی ٹیم ہونے کا لیبل چسپان کیا جاتا …لیکن اُس زمانے میں ایسا ویسا کوئی لیبل نہیں تھا… کہ کشمیر میں صرف ایک لیبل چسپان کیا جارہا تھاکہ … کہ کون غدار ہے اور کون نہیں ‘ کون مجاہد ہے اور کون نہیں ‘ کون مخبر ہے اور کون نہیں ‘ کون واجب القتل ہے اور کون نہیں ‘ کس دن ہڑتال کرنی ہے اور کس دن نہیں ‘ کس دن چلو کرنا ہے اور کس دن نہیں … خیر ! بات پی ڈی پی کی کرتے ہیں…تو یہ جماعت اپنی اس شان رفتہ کو بحال کرنے کے سفر پر نکلی ہے… یہ چاہتی ہے کہ اسے پھر سے وہ کھویا ہوا مقام ملے اور… اور اللہ میاں کی قسم اگر اسے اپنا وہ کھویا ہوا مقام پھر سے مل جاتا ہے… اگر یہ اپنی ساکھ بحال کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو…توہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے… ہاں اعتراض ہے تو اس ایک بات پر ہے کہ پی ڈی پی سمجھتی ہے کہ این سی حکومت کی تنقید …بے جا تنقید کرنے سے اسے وہ کھویا ہوا مقام مل جائیگا… اس کی ساکھ بحال ہو جائیگی… لیکن ایسا نہیں ہے‘ ایسا ہو نہیں سکتا ہے… اور اس لئے نہیں ہو سکتا ہے کہ جس طرح عمرعبداللہ کی حکومت کے ہاتھ ہی نہیں بلکہ پاؤں بھی بندھے ہو ئے ہیں… اسی طرح اپوزیشن کے بھی ہاتھ پیر بندھے ہو ئے ہیں… اور اس لئے ہیں کہ اپوزیشن اُن باتوں کیلئے عمرعبداللہ سرکار کو ذمہ دار قرار نہیں دے سکتی ہیں… جن باتوں ‘ جن اشوز پر اس سرکا ر کا کوئی اختیار ہی نہیں ہے… پی ڈی پی انہی اشوز پر عمرعبداللہ کو گھیرنے کی کوشش کررہی ہے… اس امید کے ساتھ کہ ایسا کرکے وہ اپنی ساکھ بحال کرے گی… لیکن ایسا نہیں ہے… اور اس لئے نہیں ہے کیونکہ کشمیر کو اس صورتحال میں جس جماعت نے دھکیل دیا ہے… وہ بی جے پی ہے… اور پی ڈی پی کا نشانہ این سی یا عمر سرکار نہیں بلکہ بی جے پی ہونی چاہئے اور… اور سو فیصد ہونی چاہیے ۔ ہے نا؟