نعرہ غربت اور بے روزگاری کے کاتمہ کا، ترقی اور خوشحالی کا، باعزت اور پُروقار زندگی گذارنے کا ، منفرد تشخص، زبان ، تہذیب وتمدن اور ثقافت کے تحفظ کا، قدموں تلے زمین کی ملکیتی محافظت کا، اور کیا کچھ نہیں لیکن نعرہ دینے والوں کی اصل منزل، مشن اور ایجنڈا ،حصول اقتدار اور پھر تحفظ اقتدار ہوتی ہے تاکہ دبدبہ اور طاقت ہاتھ میں رہے ، عیاشیوں اور حصول مراعات کے فلڈ گیٹ وا ہوتے رہیں، مفت رہائش ، بلٹ پروف گاڑیوں کی ہمہ وقتی دستیابی پرکوئی آنچ نہ آنے پائے۔
گذرے ۷۷؍ سال کشمیر اور اہل کشمیر یہی کچھ دیکھتا، پرکھتا اور سہتاآرہاہے۔اس مدت کے دوران سیاسی اُفق پر نئی نئی پارٹیاں اور نئے چہرے منظرعام پرآتے رہے، بلند وبالا دعویٰ کرتے رہے لیکن نہ پرانے اور روایتی سیاست کار اورنہ ہی سیاسی میدان میں لنگر لنگوٹے کس کراُترنے والے نئے چہرے ہی کسی ایک بھی حوالہ سے کشمیر اور کشمیری عوام کے دُکھ درد، تکالیف، درپیش سنگین نوعیت کی مشکلات، روزمرہ معمولات کے تعلق سے مسائل، معاشرتی سطح پر درپیش چیلنجوں اور برائیوں کا سدباب، معاشرے میں تیزی سے سرائیت کرتی جارہی توہم پرستی اور عقیدتی جنون کے ساتھ ساتھ اُن سیاہ کاریوں کا ہی سدباب کی سمت میں کوئی فخریہ کارنامہ ان کی ذات سے منسوب ہے۔
بحیثیت مجموعی یہ سارا منظرنامہ بادی النظرمیں کشمیر کا دوسرا عنوان بن چکا ہے جس کو نہ اب بدقسمتی کہاجاسکتا ہے اور نہ المیہ کیونکہ اپنی آنکھوں کے سامنے اور اپنے اردگرد سب کچھ مشاہدہ کرنے کے باوجود اوسط شہری بھی اس سارے منظرنامہ کے حوالہ سے اپنے انداز فکر، طرزعمل اور اپروچ میں کوئی تبدیلی لانے کیلئے تیار نہیں، اس کی سوچ اور اپروچ کا دائرہ وہ بھی دیکھا اب یہ بھی دیکھ کے مترادف بن چکاہے ۔
کشمیر کے اس مخصوص تناظرمیں اس کی سیاسی اُفق پر ایک اور تنظیم خود کو منوانے کیلئے میدان میں اُتر گئی ہے۔ ممنوعہ جماعت اسلامی سے وابستہ ایک دھڑہ خود کو ایک نئے لبادہ میں ملبوس کرکے میدان میں اپنی دوسری قسمت آزمائی کیلئے اُتر رہا ہے۔ حالیہ الیکشن میں اس دھڑہ کے سبھی اُمیدواروں کو نہ صرف شکست ہوئی تھی بلکہ ایک اُمیدوار کو چھوڑ کر باقی سبھی کی ضمانتیں ضبط ہوئی۔ اس دھڑے کا دعویٰ ہے اور وہ یہ دعویٰ الیکشن عمل کے دوران مسلسل طور سے کرتا رہا کہ وہ دہلی میں اعلیٰ حکومتی اور سیاسی قیادت کے ساتھ رابطہ میں ہیں، ان سے مختلف معاملات کے حوالہ مشاورت کرتی رہی ہے، دہلی پرو اضح کردیاگیا کہ وہ جماعت پر سے پابندی ہٹادے تاکہ جماعت قومی دھارے کے حوالہ سے الیکشن عمل وغیرہ میں آسانی سے شرکت کرسکے، دہلی نے انہیں موقعہ دیا وہ الیکشن میدان میں اُترے لیکن شکست ان کا مقدر بن گئی۔
کیوں؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ کشمیر کی سیاسی اُفق کے حوالہ سے اس جماعت کا رول اور کردار کسی سے پوشیدہ نہیں، اس جماعت کی قیادت وقت وقت پر اور اپنی سہولت کے اعتبار سے کبھی الحاق کو حتمی اور ناقابل تنسیخ قرار دیتی رہی تو کبھی حلف نامہ داخل کرکے الحاق کو چیلنج کرتی رہی ۔ پھر عسکری تحریک کے دوران اس جماعت اور اس کی لیڈر شپ نے جو رول اور کردار اداکیا وہ محتاج بیان ہے اور نہ ہی کشمیری عوام سے پوشیدہ ۔ ہم تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ پرانی شراب نئی بوتل میںکچھ نئے وضع قطع کے ساتھ کسی ٹیم کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اگر ایسا ہوگا بھی تو بھی یہ قابل اعتبار نہیں۔ یہ کوئی نہیں ان سے وابستہ تاریخ یہی بتاتی ہے۔
محبوبہ کا عمر حکومت پر ایک اور طنز
یہ تصویر کشمیر کا ایک رُخ ہے،اس کا دوسرا رُخ کشمیرنشین قومی دھارے سے وابستہ سیاسی جماعتوں کے رول اور طرزعمل کے حوالہ سے سنجیدہ اور حساس حلقوں میں موضوع بحث بناہوا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے بار بار عمرحکومت کو طعنہ دیاجارہا ہے کہ اس نے عوام سے کئے وعدوں اور یقین دہانیوں کو اب اپنے تحفظ اقتدار کی خاطر حاشیہ پر رکھ لیا ہے باالخصوص منسوخ شدہ آئینی دفعات ۳۷۰، ۳۵؍ اے وغیرہ کے تعلق سے وہ کھل کر بات نہیں کرتا۔
اس تعلق سے سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اگلے روز عمرعبداللہ کو ایک بار پھر یہ کہکر نشانہ بنایا کہ عمرعبداللہ کے پاس پچاس ممبران اسمبلی اور دو ممبران پارلیمنٹ کی طاقت ہے لیکن اس کے باوجود وہ ان معاملات پر زبان کھولنے سے گریز کررہے ہیں۔ محبوبہ نے عمر پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ نوجوانوں سمیت کئی دوسرے معاملات پر بھی کھل کر بات نہیںکررہے ہیں۔ اسی سے مشابہت الزامات کئی دوسرے اپوزیشن لیڈر اور جماعتیں بھی عائد کررہی ہیں۔ ہر جماعت کو یہ جمہوری حق حاصل ہے کہ وہ اپنے منشوروں اور سیاسی ایجنڈا کے حوالہ سے کھل کر بات کرے لیکن سوال یہ ہے کہ کشمیرکے مخصوص ماحول میں کیا بیان بازی کے سہارے کسی سیاسی یا کسی حساس معاملے کا حل تلاش کرنا ممکن ہے؟
بیانات کے میزائل داغنے سے کوئی کسی پارٹی کوروک نہیں سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جومعاملات براہ راست دہلی کے ہاتھ میں ہوں، جن معاملات پر آبادی کے ایک اچھے خاصے حصے کو دہلی اپنے خیالات اور نظریہ کے ساتھ ہم آہنگ بنانے میں اب تک کامیاب رہی ہو اور جب خود کشمیر سے انہی معاملات کے تعلق سے جہاں بانت بانت کی بولیاں بولی جاتی رہی ہو اور سیاسی پارٹیوں اوران سے وابستہ لیڈر شپ کے درمیان کوئی جسمانی، فکری اور جذباتی وابستگی کا گہرا فقدان ہو وہاں ایک لیڈر معاملات کو حاشیہ پر رکھنے کا طعنہ زیب نہیں دیتا۔
جموںمیں ریاستی درجہ کی بحالی کا مطالبہ اب عوامی سطح پر ایڈریس کیاجارہاہے او روہ کچھ تنظیمیں بھی میدان میں اُتر چکی ہیں جن سے ایسی کوئی توقع نہیں لیکن اسی مخصوص اشو پر کون سی کشمیر نشین سیاسی جماعت اوران سے وابستہ لیڈر شپ میدان میں اُتری یا اُترنے کی کوشش کرتی نظرآئی…؟
اپوزیشن ان اشوز کو لے کر عمر سے چاہتی ہے کہ وہ مرکز سے ٹکر لے اور بھر پور مزاحمت کرے لیکن کیا یہ اشو عمر عبداللہ کیلئے مخصوص ہیں دوسری اپوزیشن لیڈر شپ کیلئے نہیں؟ عمر اگر مرکز کے ساتھ مفاہمت اور اشتراک کے جذبہ کے ساتھ معاملات کو حل کرنے کی سمت میں کام کررہا ہے تو اپوزیشن کو اگر عمر کا یہ رویہ معذرت خواہانہ یا سرنڈر سے مسابقت محسو س ہورہا ہے یا نظرآرہا ہے تو وہ اپنے طور سے خود آپسی اشتراک کرکے راجپوت مورچہ جموں کی تقلید کرتے ہوئے میدان میں کیوں نہیں اُتر رہی ہے؟
تلخ ترین زمینی اور تاریخی سچ یہی ہے کہ کشمیرکی سیاسی اُفق پر جو کوئی دعویدار ہے وہ اقتدار کا بھوکا ہے لیکن نعرے بلند کرتا ہے عوام کی ترقی اور باوقار زندگی کا!