سرینگر//
جموںکشمیر میں جاری خشک موسمی صورتحال آنے والے موسم سرما میں پانی کے شدید بحران کا باعث بن سکتا ہے باوجودیکہ ایک فعال مغرابی ہوا کے نتیجے میں۲۰فروری کو برف و باراں کی توقع ہے ۔
تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ برف و باراں کا یہ مرحلہ جموں وکشمیر میں جاری بارش کے کمی کے رجحان کو کم کرنے کیلئے ناکافی ہوسکتا ہے ۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ موسم سرما کی بارش میں کمی کے جاری رجحان کو پلٹنے کے لیے کافی نہیں ہوگا۔
کشمیر کے معروف ماہر موسمیات فیضان عارف نے اس بحران پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جموں وکشمیر میں موجودہ بارش کمی کی۸۰فیصد سے بھی زیادہ ہے ۔انہوں نے کہا’’موسم سرما کے دوران خشک اور کم بارشیں ریکارڈ ہونے کے باعث جموں و کشمیر ممکنہ طور پر آنے والے موسم گرما میں پانی کی شدید قلت کی طرف بڑھ رہا ہے ‘‘۔
ان کا کہنا ہے’’وادی کشمیر کے میدانی علاقوں میں موسم سرما کے دوران وقفے وقفے سے کچھ برف باری ہوئی جبکہ بالائی علاقوں میں ہلکی سے درمیانی درجے کی برفباری ہوئی لیکن موسم سرما کا زیادہ تر حصہ خشک رہا جس کے نتیجے میں چشمے ، باغات، نالے اور دیگر آبی ذخائر خشک ہو گئے ‘‘۔
فیضان کہتے ہیں’’اگر اس صورتحال میں بہتری واقع نہیں ہوئی تو جموں وکشمیر موسم سرما میں پانی کی شدید قلت سے دوچار ہوسکتا ہے ‘‘۔انہوں نے کہا’’ایک فعال مغربی ہوا جموں وکشمیر میں داخل ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر برف وباراں کا امکان ہے لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا وہ بارش کی کمی کو پورا کر سکتی ہے‘‘۔ان کا کہنا تھا’’اگرچہ یہ نظام موجودہ بارش کی کمی کو۸۰فیصد سے۷۰فیصد تک کم کر سکتا ہے لیکن یہ تقریباً کافی نہیں ہوگا‘‘۔
ماہر موسمیات کا کہنا ہے کہ صرف بڑے پیمانے کی مغربی ہوا (ڈبلیو ڈی) ہی موجودہ صورتحال کو دور کر سکتی ہے ۔انہوں نے کہا’’شکر ہے کہ۲۵فروری اور یکم مارچ کے درمیان ممکنہ طور پر مضبوط مغربی ہوائوں کے داخل ہونے کے اشارے ملتے ہیں تاہم پیشین گوئیاں بدل سکتی ہیں لیکن میں پُر امید ہوں۔ یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ چیزیں کیسے سامنے آتی ہیں آئیے اس انتہائی ضروری میگا ایونٹ کے لیے دعا کریں‘‘۔
فیضان خوشخبری دیتے ہوئے کہتے ہیں’’ایک اور مثبت خبر یہ ہے کہ بارش اور برف باری وقفے وقفے سے مارچ کے پہلے ۲۰دنوں تک جاری رہ سکتی ہے ۔تاہم یہ پیشین گوئیاں بھی حتمی نہیں ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ کمی پوری نہیں ہوتی ہے تو زراعت اور باغبابی کے شعبے کافی حد تک متاثر ہوسکتے ہیں۔ان کا کہنا ہے’’میں سال گذشتہ کے ماہ نومبر سے ہی اس بحران کے بارے میں خبر دار کر رہا ہوں اور جہلم میں پانی کی سطح کم ہونے کو اجاگر کر رہا ہوں‘‘۔
فیضان کہتے ہیں’’میں گذشتہ چار برسوں سے اس صورتحال کا بغور اور باریک بینی سے مشاہدہ کر رہا ہوں اور رجحان واضح ہے ، موسم سرما میں بارش کی کمی ریکارڈ ہو رہی ہے اور ایسا گذشتہ چھ برسوں سے مسلسل ہو رہا ہے‘‘۔
انہوں نے کہا’’یہ تباہ کن صورتحال ہے اگر گلیشئرز پر برف باری نہیں ہوسکتی ہے تو ہمارے دریا پانی سے کیسے بھر سکتے ہیں‘‘۔ان کا کہنا ہے ’’پانی کے اس بحران پر قابو پانے کیلئے ایک مضبوط اور مربوط اپروچ اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ کسانوں کو نقصان سے بچایا جا سکے اور اس ممکنہ تباہی سے نجات حاصل کرنے کیلئے متبادل انتظام کرنے کی ضرورت ہے ‘‘۔
فیضان نے کہا’’اگر فروری کے آخری دنوں اور مارچ کے اوائل میں اچھی برف باری یا بارشیں ہوسکتی ہیں تب بھی یہ سنگین مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ہے اور سرما میں بارشوں کی کمی کا یہ رجحان سیدھے ساتویں، آٹھویں، نویں یہاں تک دسویں سال میں بھی داخل ہوسکتا ہے ‘‘۔
ماہر موسمیات کہتے ہیں ہم اس کا انتظار نہیں کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا’’ہم انٹرنٹ نیٹ ورکس بنا سکتے ہیں، پل ریلویز،ہوائی اڈے بنا سکتے ہیں لیکن پانی نایاب ہوجائے تو اس کو دنیا کی کوئی ٹیکنالوجی واپس نہیں لا سکتی ہے ، دنیا کی کوئی ٹیکنالوجی دریائوں کو پانی سے نہیں بھر سکتی ہے ‘‘۔
انہوں نے کہا’’ہمیں اپنے آپ کو موسمیاتی تبدیلی کے مطابق ڈھالنا چاہیے ، اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنی چاہیے اور مستقبل کے لیے تیاری کرنی چاہیے ‘‘۔
فیضان کہتے ہیں’’قیادت کو فوری طور پر اس بحران کو اس سنجیدگی کے ساتھ حل کرنا چاہیے جس کی وہ مستحق ہے ‘‘۔انہوں نے کہا’’ہاں، اگر۲۰فروری کو بارش اور برف باری ہوتی ہے تو لوگ پانی کے بحران کو بھول سکتے ہیں لیکن میں ایسا نہیں کروں گا اور نہ ہی ہمیں ایسا کرنا چاہئے اس سے مجموعی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی یہ عمل کرنے کا وقت ہے ۔‘‘