نئی دہلی// کانگریس نے بدھ کو مرکز کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت پر جمہوریت کو کمزور کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ پارٹی کے سابق صدر راہل گاندھی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کے ہر سوال کا جواب دیں گے۔
پارٹی کے سینئر لیڈر اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ملکارجن کھرگے، راجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلوت، چھتیس گڑھ کے وزیر اعلی بھوپیش بگھیل، پارٹی کے جنرل سکریٹری مکل واسنک اور شکتی سنگھ گوہل اور میڈیا انچارج رندیپ سنگھ سرجے والا نے یہا پارٹی ہیڈ کوارٹر میں ایک پریس کانفرنس میں کہاکہ مرکزی حکومت ملک کی جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف کام کر رہی ہے۔ پولیس نے کانگریس ہیڈکوارٹر کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور جمہوریت میں اس طرح کے آمرانہ رجحانات کے ساتھ مرکزی حکومت کام کر رہی ہے۔
کانگریس لیڈروں نے کہاکہ مسٹر گاندھی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے ہر سوال کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ مسٹر گاندھی کسی سوال کا جواب دینے سے نہیں ڈریں گے۔
انہوں نے کہا کہ کانگریس راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے منصوبوں کے درمیان ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ وہ پارٹی کو سخت نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کانگریس لیڈروں نے کہا کہ ای ڈی کی کارروائی مسٹر گاندھی اور محترمہ سونیا گاندھی کے خلاف نہیں ہے بلکہ کانگریس کو تباہ کرنے کی سازش ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کانگریس کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ نیشنل ہیرالڈ معاملے میں آج مسلسل تیسرے دن ای ڈی نے مسٹر گاندھی سے پوچھ گچھ کی۔مسٹر گہلوت نے بی جے پی کے گزشتہ آٹھ سالوں کو ایک سیاہ باب قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور جمہوریت خطرے میں ہے۔
مسٹر بگھیل نے کہا کہ مسٹر گاندھی مسلسل مرکزی حکومت کی ناکامیوں اور اس کے غلط ارادوں اور غلط فیصلوں پر انگلیاں اٹھانے کی ہمت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ چاہے یہ زرعی قوانین کو واپس لینے کا معاملہ ہو، چاہے وہ نوٹ بندی کا ہو، چاہے جی ایس ٹی کا ہو، چاہے وہ لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا معاملہ ہو، چاہے وہ عالمی وبا کی تیاری کے تناظر میں ہو، چاہے وہ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مہنگائی کا مسئلہ ہو، ان تمام معاملات پر لگاتارمسٹر گاندھی اپنی آواز بلند کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے میں جب ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے، بی جے پی نے فیصلہ کیا کہ مسٹر گاندھی کی آواز کو دبایا جائے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے مرکزی ایجنسیوں کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے، تمام اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران کو کسی نہ کسی معاملے میں پھنسا کر ان کا منہ بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔