پردہ اٹھ رہا ہے… آہستہ آہستہ ہی سہی لیکن اٹھ رہا ہے … ان باتوں پر سے اٹھ رہاہے جو باتیں کسی کے ذہن میں گردش کررہی ہیں… آپ کے ذہن میں ‘ ہمارے ذہن میںیا کسی اور کے ذہن میں گردش کررہی ہیں… یہ باتیں کہ… کہ اگر این سی جموں کشمیر کے ’بہترین‘ مفاد میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے اسے جموں کشمیر کی حکومت میں حصہ دار بنائیے تو… تو اس میں حرج ہی کیا ہے… کوئی حرج نہیں ہے … ایسی باتیں اس لئے گردش کررہی ہیں کیونکہ لوگ محسوس کررہے ہیں… یہ محسوس کررہے ہیں کہ حکومت سے کچھ نہیں ہو پارہا ہے… کچھ ٹھوس نہیں ہو رپا رہا ہے … حکومت کچھ کر نہیں رہی ہے یا اسے کچھ کرنے نہیں دیا جارہا ہے … اور اس لئے کرنے نہیں دیا جارہا ہے تا کہ یہ تنگ آکر گھٹنے ٹیک دے… یہ تھک ہار کر سرنڈر کرے … اور اس لئے کرے کہ اس کی امیدوں اور توقعات کے بالکل برعکس جموں کشمیر کے ریاستی درجے کی بحالی مستقبل قریب میں دکھائی نہیں دے رہی ہے… بالکل بھی نہیں دکھائی دے رہی ہے ۔ گردش کررہیں ان باتوں کے مطابق مرکز ایسا جان بوجھ کر رہاہے…وہ عمرسرکار پر دباؤ ڈال رہا ہے… اسے پیغام دے رہا ہے ‘واضح پیغام کہ وہ ریاستی بحالی کیلئے یا تو نہ ختم ہونے والا انتظار کرکے لوگوں کی ان تمناؤں ‘ احساسات اور توقعات کو اپنے سامنے دم توڑا دیکھے یا پھر ہاتھ ملائیے… یقینا وزیر اعلیٰ نے ہاتھ ملایا ہے اور پہلے دن سے ملایا ہے… لیکن مرکز چاہتا ہے کہ وہ دل بھی ملائے اور… اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بی جے پی کو جموں کشمیر میں شریک اقتدار کریں …اگر وزیر اعلیٰ اس کیلئے تیار ہو تے ہیں تو… تو پھر مرکز بھی ریاستی درجہ بحال ہونے کیلئے تیار ہو گا اور… اور فوری طور پر تیار ہو گا … اور… اور انہی سب باتوں کو دیکھ کر ‘بھانپ کر لوگوں کے اذہان میں یہ باتیں گردش کررہی ہیں کہ این سی ‘ بی جے پی سے اتحاد کرنے والی ہے… ایسی بات جس کی حکمران جماعت کے ترجمان اعلیٰ‘ تنویر صادق اور بی جے پی کے سنیل شرما دونوں مسترد کر چکے ہیں۔ لیکن سیانے لوگ کہہ گئے ہیں کہ آگ لگنے پر ہی دھواں اٹھتا ہے …آگ لگنے کے بغیر دھویں کا اٹھنا ممکن نہیں ہے… باکل بھی نہیں ہے ۔ ہے نا؟