دُنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جو یہ دعویٰ نہ کررہا ہو کہ وہ کورپشن اور بدعنوان طرزعمل کو کسی صورت میں برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے بلکہ قدم قدم پر یہ یقین دلایاجارہا ہے کہ کورپشن کے حوالہ سے زیروٹالرنس ہے لیکن تلخ سچ یہی ہے کہ دُنیا میں محض چند اقوام ہی ہیں جو کورپشن اور بدعنوانیوںکا راستہ اختیار نہیں کرتے غالباً یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح کی ایک تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ایسے چند ممالک کے حوالہ سے معترف ہے کہ وہ کورپشن سے پاک ہیں جبکہ ان ممالک جہاں کورپشن اور بدعنوان طرزعمل اعلیٰ سیاسی اور حکومتی ایوانوں سے لے کر نچلی درجہ چہارم کے ملاز م تک ہر شئے کو رپشن میں غوطہ زن ہے کی بھی سال بہ سال نشاندہی کرکے اپنی تشویش اور ناپسندیدگی کا برملا اظہار کرکے ان ممالک کو آئینہ دکھا رہی ہے۔
اس خطے میں پاکستان، بنگلہ دیش، ہندوستان ، سری لنکا ، افغانستان، میانمار، مالدیپ وغیرہ ایسے ممالک ہیں جو سراپا کورپٹ اور ہر سال ان کی درجہ بندی کا گراف گرتا ہی چلا جارہا ہے تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کا کورپشن کاگراف گذشتہ سال کے مقالبے میں دو درجہ گر گیا ہے جبکہ ہندوستان کا کورپشن کے حوالہ سے انڈیکس بھی بیتے سال کے مقابلے میں کئی درجہ نیچے چلاگیا ہے۔
خطے کے دوسرے ممالک کو چھوڑ کر ان دونوں ممالک کا دعویٰ ہے کہ وہ کورپشن کے خلاف برسرپیکار ہیں اور کورپٹ اور بدعنوان عناصر کے خلاف شکنجہ کس کر تادیبی کارروائیوں کا عمل جاری ہے ۔ لیکن یہ دعویٰ سچ اور حقیقت کی کسوٹی پر پورے نہیں اُترتے، بلکہ سچ یہی ہے کہ اس خطے کے یہ دونوں ممالک کورپٹ اور بدعنوان ہیں۔ کوئی بھی سیاسی قبیلہ کورپشن اور بدعنوان طرزعمل اور طریقہ کار سے مُبرا نہیں اور نہ ہی پاک وصاف اور ستھری سیاست کررہاہے۔ البتہ یہ بھی سچ ہے کہ ہر سیاستدان خودکو پرہیز گار زاہد اور تقویٰ شعار کے طور عوام کے روبرو پیش کرنے میںکوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیںدے رہا ہے۔
مثالیں اور معاملات درجنو ںمیں نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں دستیاب ہیں، ریکارڈ پر بھی ہیں اور بادی النظرمیں عوامی سطح پر بھی ان معاملات کو کورپٹ اور بدعنوان تصور کیاجارہاہے ۔ لیکن پرابلم یہ ہے کہ ان معاملات میں ملوثین کے خلاف کارروائیوں اور عدالتی اقدامات کو منطقی انجام تک لے جانے کیلئے سالہاسال نہیں بلکہ دہائیاں لگ جاتی ہیں اور پھر یا تو طوالت کا بوجھ نہ سہتے ہوئے یہ عدالتوںسے باعزت بری ہوجاتے ہیں یا کوئی اور فیصلہ کرکے ترسیل انصاف کو ایک مذاق کا روپ عطاکیاجاتا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ کشمیرنشین ایک سیاستدان کو جب دہلی سے رشوت کے چند ہزار نوٹ موصول ہوئے تو ان کرنسی نوٹوں کو چھپانے یا محفوظ طریقے سے رکھنے کیلئے اس کے گھر میں جگہ نہیں تھی چنانچہ ایک ٹوٹی پھوٹی سی لکڑی کی الماری میں رکھ لئے ، اس کے کسی رشتہ دار کی نظر کرنسی کے انبار پر پڑی تو وہ چلاچلا کر سڑکوں پر آیا اور لوگوںکو بتایا کہ اس کے رشتے دار کی الماری میں دولت کے انبار ہیں، بتایا جاتا ہے کہ وہ اسی حالت میں زندگی کے باقی ایام گذر بسرکرکے دُنیا سے رخصت ہوا۔ اس کورپشن کے تعلق سے دعویٰ کیاجارہاہے کہ جموںوکشمیر کے حوالہ سے یہ پہلی بڑی کورپشن تھی جس کورپشن کو دہلی نے اپنی اندھی سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر کشمیرنشین ایک سیاستدان کی جھولی کی نذر کردیا، پھر آگے چل کر یہی پہلی کورپشن پورے خطے میں بڑے پیمانے پر بدعنوانیوں، کورپٹ طرزعمل، قدرتی وسائل پر ڈاکہ زنی، سیاسی اور معاشرتی سطح پرغنڈہ گردی، حرام کاری اور سب سے بڑھ کر عدم سیاسی استحکام کی بُنیاد رکھنے کی سمت میں کلیدی تصور کی جارہی ہے۔
اگر چہ ملکی سطح پر کئی ایجنسیاں بدعنوانیوں، کورپشن ،حوالہ اور منی لانڈرنگ ایسے معاملات میں ملوثین کے خلاف روزانہ بُنیادوں پر بڑی بڑی کارروائیوں کو آگے بڑھا رہی ہیں، تفتیش کا دائرہ کار ہر گذرتے روز کے ساتھ وسعت اختیار کرتا جارہاہے، پوچھ تاچھ اور تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے جدید سائنسی خطوط کو بروئے کار لایاجارہاہے لیکن ان سب کا وشوں کے باوجودنہ کورپشن کا سیلاب روکے رک رہا ہے اور نہ بدعنوان طرزعمل کاخاتمہ کہیں نظرآرہاہے۔
سیاست، حکمرانی، انتظامیہ، معاشرتی سطح ، سرمایہ کاری سے لے کر صنعتی زونوں کے اندر اندر تک لین دین کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو بڑے بڑے صنعت کار اور سرمایہ دار طبقے ہر سال ہزاروں کروڑوں روپے ان کے الیکشن فنڈ میں عطیہ کررہے ہیں اور بدلے میں فنڈ میں اپناسرمایہ جمع کرنے والوں کو نہ صرف مختلف نوعیت کی مراعات سے نوازا جارہا ہے بلکہ ان کے خلاف بدعنوانیوں کے معاملات کو داخل دفتر کیاجارہاہے۔ پارلیمنٹ ،راجیہ سبھا، ریاستی اسمبلیوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی اسمبلیوں میںمختلف نوعیت کی بدعنوانیوں اور جرائم میںملوث ارکان کی تصدیق شدہ تعداد اس بات کو واضح کررہی ہے کہ ملکی سیاست اور ملکی معاملات میںکورپشن اور بدعنوان طرزعمل کا کس حد تک طاقتور عمل دخل ہے اور یہ عمل دخل ہر گذرتے ایام کے ساتھ مضبوط ہوتا جارہاہے۔دوسری طرف المیہ یہ ہے کہ لوگ بھی الیکشن پراسیس کے راستے ایسے ہی بدعنوان اور جرائم میںملوث عنصر کو کامیاب بناکر اعلیٰ ایوانوں میں اپنی نمائندگی کا منڈیٹ تفویض کررہے ہیں۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
تازہ ترین اطلاع امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اُس حکم نامہ کے حوالہ سے سامنے آئی ہے جس کے تحت دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک امریکہ میں کورپشن اور بدعنوان طرزعمل کو اب زیادہ معیوب نہیں سمجھا جارہاہے۔ کورپشن کے تعلق سے مروجہ قانون کو فی الحال حاشیہ پررکھنے کے حکم نامہ پر دستخط کرکے ٹرمپ نے اپنی بدعنوان اورکورپٹ ذہنیت اورامریکی سیاسی اورانتظامی معاشرے کے چہرہ پر سے نقاب ہٹادیا ہے ۔ا س تازہ ترین حکم نامہ کی رئو سے ہندوستان کا ایک بڑا سرمایہ دار صنعت کار بھی فوری طور سے مستفید ہورہاہے۔
اپنی ریاست جو اب یوٹی کہلاتی ہے جموںوکشمیر کے بارے میں منظرنامہ کیا ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یہاں زندگی کے ہر شعبے میں کورپشن اور بدعنوان طریقہ کار مروجہ ہے۔ دفاتر میںمشکل سے کوئی فائل اپنے میڑت پر حرکت کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ کون سا شعبہ ہے جس کے حوالہ سے لین دین، کورپشن اور بدعنوان طرز عمل کی کہانیاں اور داستانیں زبان زد عام نہیں۔ اس طرزعمل اور ذہنیت کا ہی یہ شاخسانہ ہے کہ یہاں جموںوکشمیر میں ورک کلچر ہر گذرتے روز کے ساتھ مردہ ہوتا جارہا ہے، ضمیر اپنی فطرتی خمیر سے پردوں کی اوٹ میں جاتا دکھائی دے رہا ہے ،لیکن اس کے باوجود دعویٰ پارسائی اور تقویٰ کے کئے جارہے ہیں۔
فی الوقت جموںوکشمیر کا کورپشن انڈیکس کے تعلق سے ملکی سطح پر کیا درجہ ہے اس بارے میں اب زیادہ جانکاری دستیاب نہیں اگر چہ پہلے ہوا کرتی تھی۔ لیکن کورپشن اور بدعوانیوں کا دور دورہ ہے اس سے انکار نہیں۔
۔۔۔۔