کہنے والوں کاکہنا ہے کہ ایسا کوئی درد نہیں ہے اور… اور بالکل بھی نہیں ہے جس کی دوا نہ ہو ۔یعنی ہرایک درد کی دوا ہے… ہر ایک مسئلہ کا حل بھی ہے ‘ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے جس کا حل نہ ہو۔ ہمیں … ہم کشمیریوں کو بھی ایک مسئلہ درکار ہے … یہ مسئلہ اس لئے ہے کیونکہ حکومت اسے مسئلہ کہتی ہے… اور وہ مسئلہ ہے جموں کشمیر کا یونین ٹیریٹری ہو نا … ایک ریاست نہ ہونا ۔ آپ جس سے بھی بات کیجئے … وزیر سے لے کر حکمراں جماعت کے کسی ایم ایل اے صاحب سے ‘ یہ سب حضرات اسی ایک بات کا رونا روتے ہیں کہ… کہ ان کے ہاتھ بندھے ہو ئے ہیں … اس لئے یہ کچھ نہیں کر سکتے ہیں… بالکل بھی نہیںکر سکتے ہیں… یہ سب یہ شکایت کچھ اس طرح کر رہے ہیں کہ بس ریاستی درجے کی بحالی کی دیر ہے‘ کشمیر میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوں گی … جبکہ آپ اور ہم جانتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہے… ایسا کچھ ہو نے والا نہیں اور… اور اس لئے نہیں ہے کہ پانچ چھ سال پہلے بھی تو ہم ایک ریاست تھے ‘ اس وقت کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں … جو اب بہہ جائیں گی … لیکن ہاں یہ بات تو طے ہے کہ حکومت … وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ کی قیادت والی حکومت کے ہاتھ ہی نہیں بلکہ پاؤں بھی بندھے ہو ئے ہیں … اور سو فیصد ہیں… اب اس مسئلہ کا ایک حل ہے… اور یقینا ہے اور… اور وہ یہ ہے کہ جس نے کشمیر کو یہ درد دیا ہے… اسی کے پاس کی اس دوا بھی ہے … تریاق بھی ہے اور… اور اگر عمرعبداللہ چاہیں تو… تو وہ یہ دوا‘یہ تریاق حاصل کر سکتے ہیں… انہیں کچھ زیادہ کرنا نہیں ہے… بس بی جے پی کے ساتھ عملاً ہاتھ ملانا ہے اور اسے جموں کشمیر کی حکومت میں شامل کرنا ہے… وہ کیا ہے کہ بی جے پی کے۲۸/ ۲۹ منتخبہ ممبران اسمبلی پانچ سال تک مکھیاں تو نہیں ماریں گے… بس عمر عبداللہ بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملائیں … پھر ان کے ہاتھ ملانے کی دیر ہو گی کہ وہ ’مناسب‘ وقت بغیر کوئی وقت ضائع کئے جلوہ گر ہو گا اور… اور جموں کشمیر کا ریاستی درجہ بحال ہو گا اور… اور سو فیصد ہو گا … جہاں اس وقت عمر عبداللہ حکومت کے ہاتھ اور پیر بندھے ہو ئے ہیں ‘ ان کو کھولنے کیلئے اگر ضمیر کو بندھ رکھنا پڑے … تو… تو کشمیر کی کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہو نا چاہیے… یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں ‘بلکہ ماضی اس بات کی چغلی کھا رہا ہے ۔ ہے نا؟