جموںوکشمیر جنگل دولت سے بڑی تیزی کے ساتھ محروم ہوتا جارہا ہے۔ یہ کوئی مفروضہ ہے اور نہ ہی مخالفانہ پروپیگنڈہ بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف اُس رپورٹ میںکیاگیا ہے جس رپورٹ کو ابھی حال ہی میں حکومتی سطح پر منظرعام پرلایاگیاہے ۔اس رپورٹ میں اس بات کا برملا اعتراف کیاگیا ہے کہ جموںوکشمیر صرف حالیہ دو برسوں کے دوران تقریباً ۴۱؍ مربع کلومیٹر جنگل دولت سے محروم ہوچکا ہے ۔ رپورٹ میں اس تعلق سے ضلع اور خطہ وار تفصیلات موجود ہیں اور ان وجوہات کا بھی جو جنگل ایریا کے گھٹ جانے کی وجوہات ہیں ۔ان وجوہات میں منظور نظر سیاستدانوں ،سرمایہ کاروں اور دوسرے لوگوں کے حق میں آنکھیں بند کرکے اراضیوں کی الاٹمنٹ اور ان اراضیوں پر ہوٹل، رہائشی یونٹ ، صنعتی یونٹ اور سرکاری دفاتر وغیرہ تعمیر کرنے کی اجازت اور آتشزدگی کے پے درپے واقعات خاص طورسے قابل ذکر ہیں۔
دہلی سے لے کر جموںاور سرینگر تک ہر متکب فکر سے وابستہ سیاستداں، اعلیٰ عہدوں پر متمکن بیروکریٹ اور دوسرے قدم قدم پر اس بات کا دعویٰ کررہے ہیں کہ حالیہ چند برسوں میں جموںوکشمیر میںترقیات کے نئے ہمالیہ کھڑے کئے گئے ہیں جس ترقیات کی بُنیاد پر روزگار کا بھی مسئلہ حل ہوتا جارہا ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ ترقیاتی عمل بھی اپنے بال وپر پھیلاتی جارہی ہے ۔ ان برسوں میں اتنی ترقی ہوئی جتنی گذرے ستھر سالوں کے دوران نہ ہو پائی تھی۔
ان دعوئوں میں یہ نہیں بتایا جارہا ہے کہ جموں وکشمیر میں جنگلوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے ، جنگلوں کا رقبہ اور حدود سکڑتا جارہا ہے اور سکڑنے کے اس عمل میں خود حکومت اور ایڈمنسٹریشن کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کا کتنا رول ہے، اس تباہی نے جموںوکشمیرکے ماحولیات کا جوستیا ناس کردیا ہے اور کیا جارہا ہے اس کا بھی اظہار کہیں سنائی نہیں دے رہا ہے، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اپنی جگہ لیکن جموںوکشمیر میں جنگل دولت کی لوٹ اور جنگل حدود کا خاتمہ نے جہاں گلیشیرئوں کے وجود کیلئے سنگین خطرات پیدا کئے ہیں وہیں پانی کے سوتے بھی خشک ہوتے اور دم توڑتے جارہے ہیں۔جنگلوں کا یہ صفایا بخشی دور کے جنگل دولت کی لوٹ کے ریکارڈ یقیناً مات کرتاجارہاہے۔
پہلگام، پتنی تاپ ، گلمرگ، سونہ مرگ، دودھ پتھری ، چناب خطہ اور پیر پنچال رینچ کا منظر نامہ اب وہ نظرنہیں آرہا ہے جو کچھ برس قبل تک ہی دیدنی تھا۔ اور جس کو دیکھ کر آنکھوں کو ایک راحت اور قلب کوسکون محسوس ہوتا تھا لیکن اب چاروں اطرف ویرانی ہی ویرانی دیکھ کر افسوس بھی ہوتا ہے اور شرم بھی کہ ہم جموںوکشمیر کے پشتنی باشندے اور اس جنگل دولت کے نگہباں ہونے کے ناطے اپنی اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داریاں نہ نبھا کر ایک مجرمانہ کردار خاموشی کے ساتھ ادا کررہے ہیں اور ان لٹیروں کو اپنی آنکھوں سے جنگل دولت کا ستیاناس کرتے دیکھنے کے باوجود بے حسی اور بے اعتنائی سے کام لے رہے ہیں۔
صدیوں قبل کشمیرکے ایک عظیم فرزند حضرت علمدار کشمیرؒ نے تو یہ کہکر ہمیں چتاونی دی تھی کہ ان پوشہ تیلہ یلہ ون پوشہ، علمدار ؒ کشمیر کے اس فلسفہ میں زندگی، حیات، ماحولیات اور سب سے بڑھ کر نظام قدرت وفطرت کا عظیم سرمایہ ہے لیکن ان کے لئے جو فہم رکھتے ہیں، جو صاحب بصیرت اور صاحب حکمت اور دانا ومدبر ہیں البتہ پتھر اور لکڑی نما حس رکھنے والوں کے لئے نہیں کیونکہ یہ فلسفہ ان کی سمجھ اور ادراک سے بالا ہے۔
مذکورہ سرکاری رپورٹ میں جن علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں درخت کاٹے گئے یا جن کی کٹائی کا سلسلہ جاری ہے وہ بجائے خود پریشان کن اور تکلیف دہ تو ہیں ہی لیکن کشمیر نشین سیاسی قبیلوں … نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی، کمیونسٹ پارٹی، اپنی پارٹی، پیپلز کانفرنس اور ان دوسرے حلقوں جو سیاست زدہ بھی ہیں اور خود کو دوسر ے چہرے کے ساتھ سول سوسائٹی کے روپ میں سامنے آتے رہتے ہیں کیلئے یہ صورتحال ڈوب مرنے کا مقام ہے۔جبکہ جموںنشین بی جے پی ، کانگریس اور دوسری چھوٹی بڑی پارٹیوں جو ہر اشو پر آئے روز سڑکوں پر دندناتے رہتے ہیں اور زندہ باد اور مردہ باد کے نعروںسے فضا میں اِرِتعاش پیدا کرنے کا موجب بنے رہتے ہیں کی اس جنگل دولت کا کھلے بندوں قتل عام پر خاموشی بھی مجرمانہ ہے۔
یہ سب کچھ ترقی کے نام پر ہورہاہے لیکن ترقیات کے اس عمل میںجس تباہی اور ماحولیاتی بربادی کے بیج بوئے جارہے ہیں ان پر کیوں توجہ نہیں ؟ بجلی پروجیکٹوں کی تعمیر، سڑکوں کی کشادگی نئی شاہرائوں کی تعمیر وتجدید، آبادی کے بڑھتے دبائو کے پیش نظر لینڈ سکیپ میں صورتحال کے تقاضوں کے مطابق مناسب تبدیلی ایسے اقدامات سے کس کو انکار ہے لیکن توازن اور اعتدال بھی کسی جانور کا نام ہے حکومت اور ایڈمنسٹریشن کے متعلقہ حلقے توازن اور اعتدال کس جانور یا شئے کا نام ہے غالباً ان سے واقف نہیں۔ من مانیوں کا تسلط، اختیارات اور فیصلہ سازی کا دبدبہ اپنی جگہ لیکن جو بیروکریٹ ا س نوعیت کی سرگرمیوں سے وابستگی رکھتے ہیں ان کے لئے یہ بھی لازم ہونا چاہئے کہ وہ نہ صرف توازن اور اعتدال کا خیال کریں بلکہ آبادی کے وسیع تر مفادات کو محض اپنی انانیت اور من مانیوں کے لئے قربانی کی بھینٹ چڑھانے سے اجتناب کیاکریں۔
حکومتی سطح پر ’’گرین‘‘ پر حد سے زیادہ توجہ مبذول کی جارہی ہے۔ گرین مسافر بسوں،گرین گاڑیوں ، ای رکشا اور گرین ا سے ی تک ہر شئے کو گرین بنانے کے دعویٰ اور اقدامات لیکن جہاں قدرت نے اپنی قدرت کا ملہ سے ہر سو سبزہ دار عطاکررکھے ہیں ان کا لالچی انسانی ہاتھوں سے ذبح کا عمل اختیارات اورفیصلہ سازی کے تعلق سے صاحب اقتدار کے کس کھاتے میں جمع کرکے شمار کیا جائے؟
رکھ با ہو جموں میں ۴۰؍ ہیکڑ اراضی پر نیا کورٹ کمپلکس کی تعمیر کے لئے ۳۸۰۰۰؍ درختوں کا صفایا ، سرینگرمیں رنگ روڈ کی تعمیر کیلئے ایک لاکھ دس ہزار درختوں کا قتل جن درختوں کا تعلق ہارٹیکلچر شعبے سے بھی تھا، امر سنگھ کالج کے احاطے میں دو سودرختوں کا ذبیح ، گلمرگ میں ۷۳۰؍ کے قریب ہیکڑ اراضی پر موجود ایک ہزار ساڑھے آٹھ سو کے قریب درختوں کا صفایا اور جموں کٹرہ ایکسپریس روڈکی تعمیر کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تقریباًبائیس ہزار درختوں کی کٹائی محض چند حوالے ہیں۔
اس سارے منظرنامے میں قومی سطح پر قائم گرین ٹریبونل کی کارکردگی محض ایک تماشائی اور معاونتی ادارے کی ہے، جو یہاں وہاں کچھ ایک مواقع پر شوروغل برپا کرکے اپنے وجود کیلئے لائسنس کی توسیع کے علاوہ اور کچھ نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قومی سطح کا اس ادارہ کی حیثیت ہاتھی کے دانت کی اور کھانے کی اور سے ہی مماثلت تصور کی جارہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔