اُمید تھی کہ مرکزی بجٹ تجاویز میںجموںوکشمیر کے حوالہ سے اب کی بار کچھ مختلف مگر مثبت ہوگا کیونکہ ایک دہائی کے بعد الیکشن ہوئے، پرامن طریقے سے منطقی انجام تک پہنچ گئے، نئی عوامی منتخبہ حکومت کا قیام عمل میں آیا اور سب سے بڑھ کر ٹنل کے آر پار عوام نے بھاری اکثریت سے اپنی حق رائے دہی کا استعمال کرکے بیک وقت کئی نئے پیغامات بھی دیئے۔
کٹرہ سے بانہال کو ریل پروجیکٹ سے جوڑ دیا گیا قطع نظر اس کے کہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ پہلی بار کشمیرکو ریل کے راستے دہلی سے ملایاگیا جبکہ یہی راستہ کنیا کماری تک پہنچ جاتا ہے۔ صدر جمہوریہ کے خطاب کے مطابق گذشتہ چھ ماہ کے دوران مستقبل کے تعلق سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کار ی کرکے ڈھانچہ کو استوار کیاگیا۔ ترقیات کے حوالہ سے بھی کئی دعویٰ کئے جارہے ہیں۔ ان مخصوص اعلانات یا دعوئوں کے تناظرمیں یہ اُمید کی جارہی تھی کہ جموں وکشمیر کیلئے امدادی فنڈز میں خاطر خواہ اضافہ کیاجائے گا تاکہ اس سارے منظرنامہ کودوام عطاکرنے کے مزید نئے راستے ہموارہوتے جائیں۔
لیکن یہ اُمید حسرتوں میں بدل گئی۔ مرکزی بجٹ میں جموں وکشمیر کے لئے ۴۱۰۰۰ کروڑ مختص کئے گئے جو کہ رواں مالی سال کے لئے مختص رقم ۷۴۔۲۷۷،۴۲ ؍کروڑ روپے کے مقابلے میں ۶۷۔۱۲۷۶؍ کروڑ کم ہے ۔ دوسرے الفاظ میں مرکزی وزارت خزانہ نے بجٹ میں اضافہ کرنے کی بجائے کٹوتی کردی گئی جس کٹوتی کی بظاہر کوئی معقول وجہ یا جواز نہیں ۔ کیا اس کٹوتی کا تعلق سیاسی ہے یا اور کچھ ، فی الحال اس کے بارے میں کچھ کہنا قدرے فہم سے مبرا ہے ۔
کانگریس کے عہد میں جموں وکشمیر کیلئے مختص فنڈز میں اوسط دس فیصد سالانہ اضافہ کیاجاتا تھا اگراب کی بار بھی صرف دس فیصد تک ہی اضافہ کیا جاتا تو بجٹ کا مختص عدد۴۶۵۰۵؍کروڑ ہوتا۔ لیکن مرکزی وزارت خزانہ نے نہ صرف گذشتہ سال کے بجٹ میں تقریباً ۱۳؍سوکروڑ روپے کی کٹوتی کردی بلکہ دس فیصد اضافہ سے بھی محروم کردیا۔ جو کٹوتی بحیثیت مجموعی ۵۵۰۵؍ کروڑ بنتی ہے ۔
وزیراعلیٰ کا مشن دہلی ناکام
وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے حالیہ ایام میںدہلی جاکر اہم مرکزی وزارتوں کے انچارج وزراء سے ملاقاتیںکی، انہیں تحائف پیش کئے، وزیرخزانہ محترمہ سیتا رمن سے بھی ملاقات کی، اور ان سے گذارش کی چونکہ خزانہ خالی ہے، فوری ضروریات کی تکمیل کیلئے عبوری پیکیج کے طور پر ۶۵۰۰؍ کروڑ روپے کی امداد فراہم کی جائے ۔ وزیراعلیٰ اپنے اس دورے اور ملاقاتوں کے حوالوں سے بڑے پُر اُمید اور مطمئن تھے لیکن جو بجٹ سامنے آئی اس سے یہ واضح پیغام مل رہا ہے کہ ان کا یہ دہلی مشن ناکام ہوا۔
اگر چہ بجٹ پیش کئے اب تک کئی گھنٹے گذر گئے سرکاری سطح پر ردعمل کا انتظار ہے۔ا لبتہ نیشنل کانفرنس کے ایک ترجمان کا بیان میڈیا میںگردش کررہا ہے جس میںمرکزی بجٹ کا تقریباً خیر مقدم کیاجارہاہے اور مرکز سے یہ مطالبہ کیاجارہاہے کہ جن نئے ۵۰؍ سیاحتی مقامات کی ترقی کا منصوبہ ہے اُس میں جموں وکشمیر کو بھی شامل کیا جائے۔ چونکہ جموں وکشمیر ایک سیاحتی مقام ہے لہٰذا اس کو میڈیکل ٹورازم کے طور بھی ترقی دی جائے۔ بجٹ کی مکمل تفصیلات عوام کے روبرو ہے لیکن ترجمان کا کہنا ہے مکمل تفصیلات سامنے آنے کے بعد ہی کوئی رائے زنی کی جاسکتی ہے ۔ مرکزی حکومت عوامی منڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے جموں وکشمیرکیلئے اچھا پیکیج فراہم کرے۔ ترجمان کے اس بیان پر حیرت ہے۔
پولیس بجٹ: ریاستی درجہ مزید التواء میں ؟
مرکزی بجٹ میں سال گذشتہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اب کی بار بھی جموںوکشمیر پولیس کیلئے علیحدہ بجٹ تجویز کی گئی ہے جو بحیثیت مجموعی ۷۳۔۹۳۲۵؍ کروڑ روپے پر مشتمل ہے ۔ پولیس کیلئے پھر سے علیحدہ بجٹ مختص کرنے کے مرکزی سرکاری کے اقدام کو سنجیدہ سیاسی حلقے ریاستی درجہ کی بحالی کے مطالبے کو فی الحال مزید التواء میں رکھنے کی سوچ سے منسلک کررہے ہیں اور واضح کررہے ہیں کہ پولیس کیلئے علیحدہ بجٹ مختص کرکے مرکز نے جموںوکشمیر کی سرکار کو دوٹوک اور واضح پیغام دے دیا ہے۔ اگر چہ نیشنل کانفرنس کے ترجمان نے بجٹ پیش کئے جانے سے محض چند گھنٹے قبل یہ دعویٰ کیا تھا کہ بجٹ سیشن کے دوران ریاستی درجہ کی بحالی کی اُمیدہے۔تاہم اس بجٹ میں بھی تقریباً چار سو کروڑ روپے کی کٹوتی کردی گئی ہے۔
لداخ بجٹ : ایک موازنہ
کرگل اور لیہہ پر مشتمل دو اضلاع جن کی مجموعی آبادی چار لاکھ کے قریب ہے کیلئے جو بجٹ تجویز کی گئی ہے اس کا حجم ۱۵۔۴۶۹۲؍کروڑروپے ہے۔ دوسرے الفاظ میں تقریباً دو لاکھ آبادی پر مشتمل ایک ضلع کیلئے ۲۳۴۶؍ کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس کا موازنہ جب جموںوکشمیر کے ۲۰؍ ضلعوں پر مشتمل آبادی کیلئے مختص بجٹ عدد کا موازنہ کیا جاتا ہے تو یہ ۲۰۵۰ کروڑ روپے بنتی ہے جو کرگل اور لیہہ کی فی ضلع آبادی کے موازنہ میں ۶۴؍ کروڑ روپے کم ہے۔ ویسے ماضی میں یہ دونوں ضلع ہر سال زیادہ ہی رقم حاصل کرتے رہے ہیں اور سال بھر رونا رہتے کہ کشمیر سرکار ان کے ساتھ ناانصافی کررہی ہے۔ حالانکہ ان کے بچوں کے تعلیمی، تربیتی اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں پر سوفیصد سبسڈی ادا کی جاتی تھی جبکہ تمام آبادی ہر طرح کے ٹیکس چھوٹ سے مستفید ہوتی رہی۔تاہم جموںوکشمیر کے ساتھ ساتھ لداخ کیلئے مختص مالی امداد میں بھی ۱۲۶۶ ؍کروڑ روپے کی کٹوتی کردی گئی ہے۔
بجٹ کٹوتی کے منفی اثرات کس کس پر ؟
بجٹ کٹوتی کے منفی اثرات ترقیات، انتظامیہ، صحت، تعلیم، فلاحی پروگراموں ، روزگار کے ساتھ ساتھ کئی ایک شعبوں پر مرتب ہوتے جائیں گے جن اثرات کو بتدریج محسوس کیا جاتارہے گا۔ سال رواں کے بجٹ میں منتخبہ عوامی نمائندگان کیلئے تنخواہوں ، الائونس اور دیگر فنڈز کیلئے کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی اس کے باوجود بجٹ کا تخمینہ ۴۲۲۷۷؍ کروڑ تھا، اب جبکہ ۹۵؍ ممبران اسمبلی کا بوجھ ہے اُن کیلئے تنخواہیں، مراعات، گاڑیاں اور ترقیاتی فنڈز وغیرہ کیلئے سرمایہ درکار ہے تو کٹوتی کے ہوتے ان کی تکمیل تو رک نہیں سکتی البتہ ان مدات کیلئے درکار رقم کٹوتی شدہ بجٹ سے ہی حاصل کرنے کی نوبت آئے گی۔
پھر اگر دیگر بلدیاتی ، پنچایتی وغیرہ اداروں کیلئے نئے انتخابات ناگزیر بن جائیں گے تو ان کیلئے ایک بھاری بھرکم بجٹ درکار ہوگی۔ ان سارے اخراجات کی تکمیل کیلئے کٹوتی کی زد میں کئی شعبے آئیں گے جن میںسب سے زیادہ روزگار سے وابستہ شعبہ حدسے زیادہ متاثر ہوسکتا ہے ، حکمران پارٹی نے اپنے چنائو منشور میں جس تعداد میں سرکاری ملازمت یا روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے وہ موجودہ کٹوتی منظرنامے میں شرمندہ تعبیر ہوتا نظرنہیں آرہا ہے۔ جبکہ حکومت پہلے ہی ان اسامیوں کو Freezeکرچکی ہے جو گذشتہ دو، تین سال سے پُر نہیں کی جاسکی ہیں۔لہٰذا چنائوی یقین دہانی کی تکمیل ایک ڈرائونا خواب ہی ثابت ہونے جارہاہے۔
کٹوتی کے اس عمل میں ہر شعبہ منفی طور سے متاثر ہو سکتا ہے ۔ حکومت ترقیاتی منظرنامہ کی موجودہ رفتار برقرار رکھنے کی سمت میں وسائل کہاں سے جٹا پائیگی جبکہ اس کی حیثیت فی الوقت سٹیٹ کی نہیں بلکہ محض یونین ٹریٹری کی ہے جو اختیارات اور فیصلہ سازی کے تعلق سے محض ایک چھوٹی سی بلدیاتی ادارہ سے زیادہ حیثیت اور درجہ کی حامل نہیں لگتی۔
بجٹ پر جموںوکشمیر میںمختلف حلقوں کی جانب سے جو ردعمل اب تک سامنے آیاہے وہ ملا جلا ہے،پردیش کانگریس کے سربراہ طارق حمید قرہ نے بجٹ کومایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قیمتوں میں بدترین اضافہ، ہر طرح کے ٹیکسوں کا نفاذ، سرکاری اور پرائیوٹ سیکٹر میں روزگار کے ختم ہوتے جارہے امکانات سے تعلیم یافتہ نوجوان طبقے میں بڑھتی فریسٹریشن ایسے معاملات مرکزی سرکار کے لئے باعث حساس ہونے چاہتے تھے اور ان اشوز کے ہوتے خصوصی پیکیج اور توجہ کی اُمید کی جارہی تھی لیکن مرکز نے کسی ایک بھی امور کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ اس کے برعکس بجٹ میں دہلی اور بہار کے الیکشن منظرنامہ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنی ترجیحات میں رکھا۔
تاہم بجٹ میں کچھ اچھی تجاویز بھی ہیں جن کی عمل آوری سے جموںوکشمیر بھی کسی حد تک مستفید ہوتا رہے گا۔ ا س حوالہ سے ان شعبوں کی نشاندہی کشمیر چیمبر آف کامرس نے بھی اپنے ردعمل میں کیا ہے باالخصوس ہینڈی کرافٹس کے تعلق سے لیکن بجٹ فنڈز میں تقریباً ایک ہزار کروڑ کی کٹوتی کو مایوس کن فیصلہ قراردیاہے۔
ردعمل سطحی، منافقانہ اور چاپلوسانہ!
جو ردعمل سامنے آیا وہ فہم وادراک سے مُبرا ہے۔ اس کوسطحی کہا جائے، منافقانہ تصورکیاجائے یا چاپلوسی سے عبارت، البتہ کچھ حلقوں باالخصوص جموںوکشمیر سے وابستگی رکھنے والے چند ایک حلقوں نے ۱۲؍لاکھ روپے کی حد تک آمدن والوں کو ٹیکس سے چھوٹ کو جس انداز میں خیر مقدم کیاہے وہ واقعی حیران کن ہے جبکہ بجٹ کوپیش اور مرتب کرنے والوں کی جانب سے اس مخصوص چھوٹ کے تناظرمیں فخر سے سینہ تان کر یہ مژدہ سنارہے ہیں کہ ایک کروڑلوگ ٹیکس کی ادائیگی کے دائرہ سے آزاد ہوگئے ہیں۔
حیرت توا س بات کو لے کر بھی ہے کہ کئی گھنٹے گذرنے کے باوجود حکومت کے کسی بڑے ذمہ دار، اپوزیشن باالخصوص جموںنشین بی جے پی اور کچھ دوسرے ذمہ دارحلقے خاموش ہیں۔ البتہ سیاسی گلیاروں میں اس بات پر کافی لے دے ہورہی ہے کہ جموںوکشمیر انتظامیہ باالخصوص محکمہ فینانس اور پلاننگ کہاں سو یا رہا، سکیموں کی عمل آوری اور وابستہ امورات کے تعلق سے کیا ان کی طرف سے مرکز کی مختلف وزارتوں کو مختلف شعبوں کے حوالوں سے ایکشن ٹیکن رپورٹ (ATR)پیش نہیں کی جاتی اور اگر کی جاتی رہی ہے تو کیا وجہ ہے کہ مرکزی سرکار نے امداد میںاضافہ کرنے کی بجائے بھاری کٹوتی کی۔ یہ سوال بھی کیا جارہاہے کہ بلکہ اس پر زور بھی دیا جارہا ہے کہ غالباً اس کٹوتی کے پیچھے جموںوکشمیر مخصوص سیاسی وجوہات ہوسکتے ہیںبالکل اُسی طرح جس طرح بہار کیلئے مالی مراعاات اور پروجیکٹوں کی بارش کے پیچھے بہار مخصوص سیاسی مصلحتیں کارفرما بتائی جارہی ہیں اور ان مراعات کو بہار میں آنے والے الیکشن سے موسوم کیاجارہاہے۔
تاہم ایک حیران کن ردعمل ایک سابق وزیر سرجیت سنگھ سلاتھیہ جو نیشنل کانفرنس کا دستر خوان چھوڑ کربی جے پی کے خیمے سے اب وابستہ ہیں کی طرف سے اس دعویٰ کے ساتھ سامنے آیا ہے کہ جموں وکشمیر کیلئے فنڈنگ میںاضافہ جس کا تعلق زراعت، تعلیم اور صحت کے شعبوں سے ہے، کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی جموںوکشمیر کی ترقیات کے حوالہ سے کتنے سنجیدہ اور عہدبند ہیں۔
جموںوکشمیر اسمبلی کا بجٹ سیشن مارچ میںمتوقع ہے ۔ مرکزی مالی امداد میں بھاری کٹوتی کے تناظرمیں حکومت کی طرف سے جو بجٹ پیش کی جائے گی وہ اب توجہ کا مرکز رہیگی کہ عمر حکومت معاملات سے عہدہ برآں ہونے کی سمت میں کون سی حکمت عملی اپنائے گی کیونکہ اس کو پہلے سے جن بھاری چیلنجز کاسامنا ہے ان چیلنجز میں اب اور اضافہ ہونے جارہا ہے جبکہ اپوزیشن کی طرف سے دبائو اپنی جگہ عوام کی جانب سے توقعات کا جو انبار اب تک کھڑا ہوچکا ہے حکومت کیلئے وہ حد سے زیادہ سنگین نوعیت کا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔