نئی دہلی//
بھارتی فوج کے سربراہ ‘جنرل اوپیندر دویدی نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر میں باقی ماندہ دہشت گردوں میں سے ۸۰فیصد پاکستانی نڑاد ہیں۔
نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ تشدد میں کمی اور امرناتھ یاترا جیسے کامیاب واقعات کی وجہ سے دہشت گردی سے سیاحت کی طرف منتقلی ہوئی ہے۔
فوجی سربراہ نے کہا کہ گزشتہ سال ہلاک ہونے والے دہشت گردوں میں سے ۶۰ فیصد کا تعلق پاکستانی نڑاد سے تھا۔ انہوں نے کہا کہ آج تک وادی اور جموں علاقے میں باقی ماندہ دہشت گردوں میں سے تقریباً۸۰ فیصد یا اس سے زیادہ پاکستانی نڑاد ہیں۔
جنرل دویدی نے مزید کہا کہ فروری۲۰۲۱سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر مؤثر جنگ بندی معاہدے کے باوجود دراندازی کی کوششیں اور دہشت گردی کا بنیادی ڈھانچہ برقرار ہے۔
فوج کے سربراہ نے شمالی کشمیر اور ڈوڈا کشتواڑ بیلٹ میں بڑھتی ہوئی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا اعتراف کیا لیکن اس بات پر زور دیا کہ مجموعی طور پر تشدد کی سطح قابو میں ہے۔
جنرل دویدی نے کہا کہ امرناتھ یاترا کا پرامن انعقاد، جس میں پچھلے سال پانچ لاکھ سے زیادہ یاتری آئے تھے، اور اس خطے میں انتخابات’دہشت گردی سے سیاحت‘کی طرف مثبت تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
آرمی چیف نے قومی سلامتی میں میڈیا کے کردار پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ ذرائع ابلاغ اور سیکورٹی فورسز میں قوم کی تعمیر اور قومی سلامتی کیلئے یکجا ہونے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔
جنرل دویدی نے کہا’’میرا مشن ہندوستانی فوج کو خود انحصار، مستقبل کے لیے تیار فورس میں تبدیل کرتے ہوئے مکمل تیاری کو یقینی بنانا ہے، جو قومی سلامتی کا ایک اہم ستون ہے جو قوم کی تعمیر میں معنی خیز کردار ادا کرتا ہے‘‘۔
فوجی سربراہ نے کہا کہ مشرقی لداخ میں چین کے ساتھ ایکچول لائن آف کنٹرول پر صورتحال مستحکم لیکن حساس ہے اور وہاں تعینات فوجیوں کی تعداد میں اب کمی نہیں کی جائے گی۔
مشرقی لداخ میں چین کے ساتھ لائن آف ایکچول کنٹرول کے ساتھ کی صورتحال کے بارے میں آج پوچھے گئے سوالات کے جواب میں آرمی چیف نے کہا کہ وہاں کی صورتحال مستحکم لیکن حساس ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ سال کے آخر میں طے پانے والے معاہدے کے بعد بہت سے مسائل حل ہو گئے ہیں۔ دونوں فوجوں کے سپاہیوں کی گشت اور چرواہوں کی سرگرمیوں سے متعلق مسائل کو حل کر لیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہاں فوج کی تعیناتی کے معاملے میں بھی توازن برقرار رکھا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی فوج کسی بھی قسم کی صورتحال سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے ۔
سوالات کے جواب میں جنرل دویدی نے کہا کہ اپریل۲۰۲۰کے بعد حقیقی کنٹرول لائن کے ساتھ والے علاقوں میں تعطل ہے ۔ اس دوران دونوں طرف تعمیراتی سرگرمیاں اور کچھ دوسری تبدیلیاں کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ اس لیے حالات پہلے جیسے نہیں ہیں۔ تبدیلی کے اس نئے ماحول اور صورتحال میں ایک نئی افہام و تفہیم پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں فریقوں کے درمیان اعتماد کو مضبوط کیا جاسکے ۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ قیادت سے لے کر فوج کی سطح تک بات چیت کا سلسلہ جاری ہے اور کورکمانڈرز کو مقامی سطح پر تنازعہ کو حل کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حقیقی کنٹررول لائن پر فوجیوں کو سردیوں اور گرمیوں کے موسم کے مطابق تعینات کیا جاتا ہے ۔ فی الحال سردیوں کے موسم اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے وہاں تعینات فوجیوں کی تعداد میں کمی نہیں کی جائے گی اور گرمی کے موسم میں صورتحال کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے گا۔
آرمی چیف نے کہا کہ شمال مشرق میں حالات بہتر ہوئے ہیں لیکن چھٹپٹ واقعات جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی مداخلت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم حکومتی مشینری کی جانب سے امن کے قیام کی کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میانمار کی سرحد پر نگرانی سخت کر دی گئی ہے اور وہاں باڑ لگانے کا کام ترجیحی بنیادوں پر کیا جا رہا ہے ۔
بنگلہ دیش میں ہونے والی پیش رفت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش ہمارے لیے اسٹریٹجک لحاظ سے اہم ہے ۔ دونوں ملک پڑوسی ہیں، ہمیں مل جل کر رہنا ہے اور ایک دوسرے کو سمجھنا ہے اور کسی بھی قسم کی دشمنی ایک دوسرے کے مفاد میں نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جب سے بنگلہ دیش میں تبدیلی آئی ہے وہ وہاں کے آرمی چیف سے رابطے میں ہیں۔ ہم نے گزشتہ نومبر میں ایک ویڈیو کانفرنس بھی کی تھی۔ جہاں تک فوجی تعاون کا تعلق ہے تو یہ بدستور بڑھ رہا ہے ۔ ابھی تک فوجی تعلقات بہتر اور اچھے ہیں۔