ایسا لگ رہا تھا کہ کشمیر آنے سے پہلے وزیر اعظم مودی جی نے کم از کم ایک کلو گڑ کھایا ہو گا کہ… کہ سونمرگ میں زیڈ موڑ ٹنل کے افتتاح کے بعد مودی جی نے جلسہ عام سے خطاب میں ایسی میٹھی میٹھی باتیں کیں کہ …کہ ان میں شہد جیسی مٹھاس تھی… ان کی ساری باتیں سننے میں مزہ آیا… لطف آیا … وزیر اعظم نے وہ ساری باتیں کیں جو انہیں کہنی تھیں… انہوں نے وہ سب کچھ کہا جو ان کی سرکار نے کشمیر… جموںکشمیر میں کیا … دس برسوں میں کیا… اور ان کی باتیں سن کر ہمیں لگا … یہ لگا کہ ملک بھلے ہی ۲۰۴۷ میں وکست دیش بن جائے گا… ترقی یافتہ ملک بن جائیگا… اپنا کشمیر تو بن گیا ہے وکست جموںکشمیر بن گیا ہے… ترقی یافتہ بن گیا ہے…یقین کریں وزیر اعظم صاحب کی باتیں سن کرہمارے منہ میں پانی آرہا تھا… رشک ہو رہا تھا… اس سے پہلے کہ یہ رشک حسد میں بدل جاتا … ہمیں یاد آگیا ہے کہ ارے صاحب ہم بھی تو اسی کشمیر کے واسی ہیں… ہم بھی تو اسی کشمیر میں رہ رہے ہیں‘ جس کشمیر اور اس کی ترقی ‘ خوشحالی‘ امن ‘ ترقی‘سیاحت ‘ ٹنلوں ‘سڑکوں ‘ پلوں ‘ ٹرینوں ‘ بسوں ‘ روپ وییوں ‘ ایمز ‘ سنٹرل یونیورسٹیوں ‘ آئی آئی ٹیز‘ آئی ایم سی کی بات کررہے ہیں…مودی جی کررہے ہیں۔ جب یقین ہوا کہ واقعی میں ہم اسی جموںکشمیر کے واسی ہیں تو ہمیں اطمینان سا آگیا … یہ اطمینان اس وقت فخر میں بدل گیا جب وزیر اعظم نے جموںکشمیرکو ملک کا تاج قرار دیا … اس فخر پر ہم اس وقت ہم ناز کرنے لگ گئے جب مودی جی نے یقین دیا … جموںکشمیر کو یقین دلایا کہ ’مودی آپ کے ساتھ ہیں‘… اس سے زیادہ وزیر اعظم کو کچھ کہنے کی ضرورت تھی اور نہ ہمیں کچھ سننے کی… ہاں… ہاں ایک شخص کو ایک بات … وزیر اعظم مودی جی سے ایک بات… مزید ایک بات سننے کی ضرورت تھی… گرچہ ان جناب نے وزیر اعظم کو بڑے مودبانہ الفاظ اور مہذبانہ لہجے میں اُس بات کو یاد بھی دلایا… لیکن… لیکن وزیر اعلیٰ‘عمرعبداللہ کی شاید آج قسمت اچھی نہیں تھی کہ… کہ انہیں وہ بات سننے کو نہیں ملی جو یہ سننا چاہتے تھے… وزیر اعظم کے منہ سے سننا چاہتے…کوئی غم نہیں ‘ کوئی مسئلہ نہیں… وزیر اعلیٰ اپنا دل چھوٹا نہ کریں… صبر کریں کہ وہ ’مناسب‘ دن بھی آئے گا … جب وزیر اعلیٰ وہ بات وزیر اعظم کے منہ سے سنیں گے جس کے بارے میں مودی جی نے آج بات… براہ راست بات کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا … بالکل بھی نہیں سمجھا ۔ ہے نا؟