منگل, مئی 13, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

بستیوں کو اُجاڑنے کے لئے بلڈوزر کا استعمال

مافیا نے پہلے بسایا اب اُجاڑ رہے ہیں

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2025-01-14
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

بستیوں کو اُجاڑنا، بلڈوزر کا سہارا لے کر مکینوں کو بے گھر کرنا، پولیس اور فورسز کی حربی اور ضربی طاقت کی پشت پر اس نوعیت کی کاررائیوں کو عملی جامہ پہنانے کے بعد یہ اعلان کرنا کہ یہ ناجائز تعمیرات تھی، سرکاری زمین پر قبضہ کرکے ان پر بغیر اجازت نامہ کے تجاوزات کھڑی کی گئیں یا کہیں مذہبی عبادت گاہوں کیلئے کوریڈور کی تعمیر کے نام پر بلڈوزر کا استعمال کرکے مکینوں کو نشانہ بنا کر بے گھر کرنے کا چلن اب ملک میں روزمرہ کا معمول بن چکا ہے ۔
سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کہ بلڈوزر کا کہیں بھی کسی بھی حوالہ سے استعمال نہیں کیا جائے گا مدھیہ پردیش حکومت نے اجین نامی شہر میں ایک مذہبی عبادت گاہ کے لئے نیا کوریڈور تعمیر کرنے کی آڑ میں زائد از اڑھائی سو مسلم گھرانوں کی املاک کو بلڈوزر چلا کر آن واحد میں زمین بوس کرکے رکھدیا ، بستی کے اڑھائی سو مالکان مکان کو محض چند گھنٹے کی نوٹس دی گئی اور ابھی مکین نوٹس کا مطالعہ کرہی رہے تھے کہ بلڈوزر کا آہنی پنجہ زبردست پولیس حصار میں حرکت میں آگیا۔ نظام الدین نامی یہ بستی آج اپنے کل ہی کے وجود پر ماتم بھی نہیں کرپارہی ہے۔
یہ تصویر کا ایک رُخ ہے ۔ تصویر کادوسرا رُخ گذشتہ ہفتے جموں کے کچھ سدراہ بستیوں اور جموں شہر کے مختلف علاقوں میں چھاپڑی فروشوں کی بے دخلی اور گھروں کو بلڈوزر کی مدد سے زمین بوس کرنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس سے قبل جموں کے کئی علاقوں میں اسی طرز کی مسماری کارروائیوں کو عملی جامہ پہنایاگیا۔ جموں میونسپلٹی اور جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی ان انہدامی آپریشنوں کی قیادت بھی کررہی ہیں اور عملی جامہ بھی پہنارہی ہے۔
اسمبلی الیکشن سے قبل اس نوعیت کی انہدامی کاررائیوں کو یہ ادارے اپنی کارکردگیوں کے کھاتے میں ڈال کرشمار کرتی رہی لیکن اسمبلی الیکشن کی تکمیل کے بعد اب ان کاررائیوں کے پیچھے عوام کی منتخبہ حکومت کے سر تھو پنا جارہا ہے۔ جموں شہر کے کچھ بازاروں سے ریڈہ فروشوں کو ہٹادیا گیا ان کا سامان ضبط کرلیاگیا، ردعمل کے طور یہ لوگ جو متاثرین تھے فاروق عبداللہ کی رہائش گاہ واقع بھٹنڈی کے باہر سراپا احتجاج کرتے نظرآئے۔احتجاجیوں میں بہار اور چند دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے نابالغ بچے بھی موجود تھے جو احتجاجیوں کے ساتھ اس نعرے میں شامل رہے کہ ’’ہم نے نیشنل کانفرنس کے حق میں ووٹ ڈالے اور اب اس ووٹ کا یہ صلہ انہیں بے کار اور بے روزگار کرنے کی صورت میں دیاجارہا ہے ‘‘
سدراہ کی کچھ بستیوں میں بھی بلڈوزر چلا اور درجن بھر مکینوں کو بے گھر کردیاگیا۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوںنے سرکاری اراضیوں پر ناجائز قبضہ کرکے بغیر اجازت کے مکانات تعمیر کئے۔ اس طرح بلڈوزر چلا کر دس کنال اراضی ان کے ناجائز قبضوں سے چھڑا کر واپس حاصل کرلی گئی۔ ان متاثرین نے بھی احتجاج کیا اور الزام وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے سر تھونپ دیا۔
قبل اس کے کہ اس نوعیت کی کارروائیوں کے پیچھے عزائم اور مقاصد کے بارے میں کوئی رائے زنی کی جائے جموں کی مختلف بستیوں میں لوگوں نے حالیہ برسوں میں ملکیتی اراضیوں کی خریداری کی، خریداری کی تصدیق حکومت کے اختیار کردہ اداروں کی طرف سے اسٹامپ ڈیوٹی کی وصولیابی اور دیگر قانونی لوازمات کی روشنی میںکی جاتی رہی لیکن جب ان خریدی گئی اراضیوں پر مکانات کی تعمیر کیلئے میونسپلٹی ؍جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے اجازت نامہ کیلئے رجوع کیا جارہا ہے تو اجازت نامہ اجراء نہیں کیا جارہا ہے ۔کہیں کسی معاملے میں لوگوں کو بتایاجارہا ہے کہ متعلقہ فرددستیاب نہیں، کہیں بتایا جاتا ہے کہ اس مخصوص علاقے میں نئی تعمیرات پر پابندی عائد ہے، تو کہیں کچھ اور عذرات دیئے جارہے ہیں۔ اس حوالہ سے جموں کے ان متعلقہ اداروں میں ایک ایسی انارکی کو جنم دیاگیا ہے جس کی بُنیاد فرقہ پرستی، علاقہ پرستی ، نسل پرستی کے سوا اور کچھ نظرنہیں آرہی ہے۔ اس فرقہ پرستی اور علاقہ پرستی کے پیچھے اصل میں کون سے عناصر کا ہاتھ کارفرما ہے اگرچہ وہ خود سامنے نہیں آرہے ہیں لیکن وہ صاف چھپنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔
جن بستیوں کو اُجاڑا جارہا ہے ان بستیوں میں آج کی تاریخ میں مکانات تعمیر نہیں ہوئے، سالہاسال سے یہ بستیاں آباد ہوتی رہی ہیں۔ ان کے لئے پانی، سڑک ،بجلی کاروباری اور تجارتی اداروں کا قیام اور سہولیات توجموںایڈمنسٹریشن سے وابستہ متعلقہ ادارے ہی فراہم کرتے رہے ہیں۔ اُس وقت سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضوں کے آج کے دعویٰ انہیں کیوں دکھائی نہیں دے رہے تھے ۔ کیا اس لئے کہ زبانی اجازت دیتے وقت وہ اپنے دوسرے ہاتھوں سے بھاری رشوتیں اور حرام کی کمائی وصول کرلیا کرتے تھے اور اس طرح ان لوگوں جن کا تعلق بادی النظرمیں ہی جموں میونسپلٹی، جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی ، محکمہ مال، محکمہ بجلی، محکمہ جنگلات، محکمہ واٹر ورکس (جل شکتی) محکمہ آر اینڈ بی ، پی ڈبیلو ڈی وغیرہ سے ہے نے اپنے لئے حرام کی کمائی کو یقینی بنانے کیلئے ایک منظم مافیا کو وجود بخشا تھا۔
اور اب اپنے اُس مافیا طرزعمل اور اپنی ناجائز شکم پری پر پرڈہ ڈالنے کیلئے بلڈوزر کا سہارا لے کر بستیوں کو اجاڑ کر متاثرین کی صف میں یہ تاثر پیدا کیا جارہا ہے کہ یہ حکومت کی ہدایت پر کیاجارہاہے ۔ یہ ایک صریح غلط اور گمراہ کن بیانیہ ہے جو زیادہ دیر تک چلنے والا نہیں ہے بلکہ اس بلڈوزر منصوبہ کے پیچھے حقیقت میںوہی ذہنیت کارفرما ہے جس ذہنیت کا چہرہ ابھی چند روز قبل اُجین شہر میں دیکھا گیا ۔
بہرحال ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی جموں کی رہائش گاہ کے باہر ریڈہ بانوں کا احتجاج تو ہوا لیکن احتجاجیوں کے اس دعویٰ یا الزام کہ ووٹ دینے کے باوجود نیشنل کانفرنس کی حکومت نے ان کے ساتھ یہ سلوک کیا کا ابھی تک کئی روز گذرنے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیاگیا اور نہ ہی سدراہ میں انہدامی کارروائیوں کے حوالہ سے متاثرین کی طرف سے اس انہدامی کارروائی کو وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کی ہدایت سے منسوب دعویٰ کا ہی جواب سرکاری طو ر سے دیاگیا ۔
قطع نظر اس کے کہ اس نوعیت کی کارروائیوں کا کوئی اخلاقی یا انتظامی جواز ہے جو لوگ متاثرین کی صف میں شامل ہوتے جارہے ہیں سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس جموںوکشمیر ایسے بدقسمت خطے کے شہری نہیں، کیا انہیں زندہ رہنے اور سر پر اپنے لئے چھت رکھنے کا حق نہیں، فرض بھی کریں کہ وہ سرکاری زمینوں پر قابضین کی حیثیت رکھتے ہیں تو کیا دوسرا متبادل اقدام کے طور پر ان زمینوں کا معاوضہ ان سے حاصل کرکے ان کی بستیوں کو قانونی حیثیت فراہم نہیں کی جاسکتی ہے ، ماضی قریب میں جموں شہر اور اس کے مضافات میںایسی کم سے کم ۲۲؍بستیوںکو ان کی تعمیرات کے کئی سال بعد سرکار نے قانونی حیثیت دی،اگر ماضی میںایسا ہوتا رہا تو اب کیوںنہیں ؟ اس کیوں کے پیچھے بہت سارے سوالات ہیں!
۔

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

مودی اپنے وعدوں پر پورا اترتاہے، صحیح وقت پر صحیح چیزیں ہوں گی: وزیر اعظم

Next Post

وزیر اعظم نے سب کہا سوائے…؟

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
سازش۔۔۔۔۔۔۔؟

وزیر اعظم نے سب کہا سوائے…؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.