گاندربل//
وزیر اعظم نریندر مودی ۱۳جنوری کو جموں کشمیر کا دورہ کریں گے جہاں وہ زیڈ موڑ ٹنل کا افتتاح کریں گے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق گگن گیر اور سونمرگ کے درمیان۵ء۶ کلومیٹر طویل دو لین کی ٹنل زیڈ موڑ ٹنل برفانی تودے گرنے سے متاثرہ گگن گیر،سونمرگ سڑک کو بائی پاس کرے گی۔
اس سرنگ کا نام ’زیڈ شکل‘ والی سڑک کے نام پر رکھا گیا ہے، جس کی وجہ سے سفر کا وقت پچھلے روٹ کے گھنٹوں کے مقابلے میں صرف۱۵ منٹ رہ گیا ہے۔
ایک مقامی رہائشی نے شکریہ ادا کرتے ہوئے موسم سرما میں رابطے کو بڑھانے کیلئے اس روٹ کی اہمیت پر زور دیا۔
رہائشی نے کہا’’یہ بہت اہم ہے، اس کی تعمیر کے بعد، سونمرگ،لداخ سڑک اب پورے سال کھلی رہے گی۔ چونکہ لداخ ایک سرحدی علاقہ ہے، اس لیے دفاع کیلئے عام سامان جو ہوائی راستے سے لے جانا پڑتا تھا، اب اس ٹنل کی تعمیر اور افتتاح کے بعد سڑک کے ذریعے لے جایا جا سکتا ہے۔ لہذا، یہ بہت اہم ہے‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا’’لوگ خوش ہیں اور ہم مرکزی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہیں‘‘۔
وزیر اعظم۱۳ جنوری کو اس کا افتتاح کرنے جا رہے ہیں۔ مرکزی حکومت، خاص طور پر مرکزی وزیر نتن گڈکری نے اس کے ساتھ کئی اقدامات کیے ہیں۔
یہ سرنگ ملحقہ زوجیلا ٹنل کے ساتھ مل کر بالتل (امرناتھ غار)، کرگل اور لداخ جیسے علاقوں کو موسم سے محفوظ رابطہ فراہم کرنے کیلئے اسٹریٹجک طور پر اہم ہے۔ انفراسٹرکچر نہ صرف فوجی لاجسٹکس میں اضافہ کرے گا بلکہ سیاحت اور معاشی سرگرمیوں کو بھی فروغ دے گا، جس سے مقامی نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
۲۰۱۸ میں شروع کی گئی زیڈ موڑ ٹنل خطے میں تیار کی جانے والی۳۱ سڑک سرنگوں میں سے ایک ہے …۲۰ جموں و کشمیر میں اور۱۱ لداخ میں۔
زیڈ موڑ ٹنل کا افتتاح خطے میں رابطے کو بہتر بنانے اور ترقی کو فروغ دینے میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جس سے اس کی جغرافیائی تزویراتی اور اقتصادی اہمیت کو مزید تقویت ملتی ہے۔
ڈھائی ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے ۹ سال میں تعمیر ہونے والی اس سرنگ کے بارے میں وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ اس سے لداخ اور کشمیر کے درمیان پورے سال آمدورفت بحال رہے گی جس سے سیاحت کو فروغ ملے گا۔
لیکن ماہرین اس ٹنل کو انڈیا اور چین کے درمیان تناؤ اور چینی سرحد تک انڈین افواج کی فوری رسائی کے حوالے سے ایک اہم ترین دفاعی پروجیکٹ قرار دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ لداخ ہائی وے پر سونمرگ کا علاقہ ایک مشہور سیاحتی مقام ہے لیکن سرینگر سے سونمرگ تک کا راستہ برف باری کی وجہ سے اکثر سردیوں میں بند رہتا تھا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ انڈیا جموں و کشمیر، ہماچل پردیش اور اروناچل پردیش میں چین کے ساتھ لگنے والی سرحدوں پر سرنگوں اور سڑکوں کی تعمیر کے بڑے بڑے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔
سابق انڈین سفیر اور چینی امور کے ماہر پھْنچوک ستوبدن نے نئی دہلی سے بی بی سی کو فون پر بتایا’’سرحدی علاقوں تک سڑک اور ریل رابطے بنانے کے منصوبوں پر چین نے پچاس سال پہلے کام شروع کیا تھا۔ ہمارے یہاں اس جانب صرف بیس سال پہلے توجہ دی گئی۔ زیڈ موڑ ٹنل صرف لداخ میں چینی سرحد کے لیے نہیں بلکہ سیاچن کے لیے بھی بہت اہم ہے۔‘‘
اس ٹنل کو بنانے والی کمپنی ’ایپکو انفراٹیک‘ سے وابستہ ایک افسر نے بتایا کہ صرف زیڈ موڑ ٹنل سے لداخ تک مکمل رسائی ممکن نہیں اور ’یہی وجہ ہے برسوں سے زیڈ موڈ سے آگے بھی زوجیلا کے قریب ایک اور ٹنل پر کام چل رہا ہے۔‘انھوں مزید بتایا کہ زوجیلا ٹنل کا پہلا مرحلہ مکمل کیا جا چکا اور امکان ہے کہ وزیراعظم مودی اْس کا بھی جلد افتتاح کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’لیکن دوسرے مرحلہ پر کام مکمل ہو جائے تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرینگر سے لداخ ایک آل ویدر (سال بھر) سڑک بن گئی ہے۔‘
سْرنگوں اور ریلوے لائنز کی دفاعی اہمیت اپنی جگہ لیکن مبصرین کہتے ہیں کہ ان منصوبوں سے کشمیر میں معاشی ترقی بھی ممکن ہے۔
معاشی امور کے ماہر اعجاز ایوب کہتے ہیں’ ’پوری دْنیا میں سرحدی علاقوں کے قریب سرنگوں اور ریلوے لائنز کا بنیادی مقصد تو دفاعی ہوتا ہے لیکن ان سے ایک ہی خطے میں پہاڑوں اور خراب موسم کی وجہ سے ایک دوسرے سے کٹے علاقوں کے درمیان رابطہ بحال ہوجاتا ہے‘‘۔
اعجاز ایوب کہتے ہیں کہ رابطوں کی بحالی سے سیاحت اور تجارت دونوں میں ترقی ہوتی ہے۔ ’’جب سے کشمیر اور دوسرے علاقوں میں سرنگیں بننا شروع ہو گئیں ہیں وہاں زمینوں کی قیمت میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ لداخ میں تجارت کرنے والے کئی کشمیری لداخ ہائی وے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں کیونکہ سرنگوں کا یہ منصوبہ جب مکمل ہو جائے گا تو لداخ، گریز، کشتواڑ جیسے دْور دراز خطے سرینگر کے ساتھ جْڑ جائیں گے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ کشمیر میں اور پاکستان اور چین کے ساتھ سرحدوں پر اگر امن جاری رہا تو کشمیر کی معاشی صورتحال میں بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔