سرینگر/10 جنوری
اینٹی کرپشن بیورو (اے سی بی) نے سرینگر سمارٹ سٹی لمیٹڈ (ایس ایس سی ایل) کے دو ملازمین کے خلاف مبینہ طور پر آمدن سے زائد اثاثہ جات کا معاملہ درج کیا ہے۔
ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اے سی بی کے عہدیداروں نے کہا کہ چیف فنانشل آفیسر ساجد یوسف بھٹ اور ایس ایس سی ایل کے ایگزیکٹو انجینئر ظہور احمد ڈار‘ دونوں کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
اے سی بی نے مزید تفصیلات بتائے بغیر کہا”معاملہ درج کر لیا گیا ہے جبکہ اس سلسلے میں سات مقامات پر تلاشی جاری ہے“۔
اے سی بی نے کہا کہ دونوں اپنی قانونی آمدنی سے کہیں زیادہ اثاثے حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
مزید عہدیداروں کے ملوث ہونے کے بارے میں پوچھے جانے پر اے سی بی نے کہا”ہم نے ایک معاملہ درج کیا ہے اور تلاشی اور تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی مزید تفصیلات شیئر کی جا سکتی ہیں“۔
اس سے پہلے جموں کشمیر اینٹی کرپشن بیورو (اے سی بی) نے جمعہ کو سرینگر اسمارٹ سٹی پروجیکٹ (ایس ایس سی پی) کے دو عہدیداروں ‘ مالی مشیر اور ایگزیکٹو انجینئر ‘سے جڑے متعدد مقامات پر چھاپے مارے۔
اے سی بی ذرائع نے بتایا کہ سرینگر شہر کے شالٹنگ اور ٹگنواری علاقوں اور ضلع پلوامہ میں چھاپے مارے گئے۔
اسی ذرائع نے بتایا کہ یہ چھاپے عوامی فنڈز کے غلط استعمال کے الزامات کی جاری تحقیقات کا حصہ ہیں جس کے ذریعے ملزم افسران کی آمدنی کے معلوم ذرائع سے زائد اثاثے حاصل کیے گئے تھے۔
اے سی بی ذرائع نے کہا”جانچ اس بات پر مرکوز ہے کہ آیا ایس ایس سی پی کے تحت مختلف ترقیاتی پروجیکٹوں کے لئے مختص فنڈز کو ذاتی فائدے کے لئے استعمال کیا گیا تھا یا نہیں“۔
واضح رہے کہ سڑکوں، آئی ٹی خدمات، ورثے کے تحفظ، صفائی ستھرائی اور شہری نقل و حرکت کے لئے ایس ایس سی پی کے 137 اقدامات کے لئے 3000 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔
یہ منصوبہ اسمارٹ سٹیز منصوبوں کے تحت لائے گئے شہروں میں معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے قومی اسمارٹ سٹیز مشن کا حصہ تھا۔
تفتیش کار اس بات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں کہ آیا اسمارٹ سٹی اقدام کے تحت مختلف بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص فنڈز کا غلط استعمال کیا گیا تھا یا اس میں خرد برد کی گئی تھی۔
بھارت کے ملک گیر اسمارٹ سٹیز مشن کے حصے کے طور پر شروع کیے گئے سرینگر اسمارٹ سٹی پروجیکٹ کا مقصد شہری بنیادی ڈھانچے کو جدید بنانا، عوامی خدمات کو بہتر بنانا اور رہائشیوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔
ذرائع نے کہا”ملزم افسروں نے مبینہ طور پر لاگت میں اضافہ، غیر معیاری کاموں کی منظوری وغیرہ کے ذریعے معاہدوں میں ہیرا پھیری کی ہے۔ یہاں تک کہ خریداری کا عمل بھی غیر شفاف معلوم ہوتا ہے“۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایس ایس سی پی کے ذریعے کئے گئے کاموں کو پہلے دن سے ہی عام لوگوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ یہ کام بظاہر جنگی بنیادوں پر کیے گئے تھے، لیکن سڑکوں کی کھدائی اور خریداری کے عمل اور ٹھیکے کی الاٹمنٹ کے بعد، تکمیل کی رفتار اچانک گر گئی اور یہاں تک کہ کئی مقامات پر رک گئی۔ جدیدکاری کے نام پر کھودی جانے والی سڑکیں بند پڑی تھیں اور مہینوں تک قابل استعمال نہیں رہیں۔ (ایجنسیاں)