سرینگر/۲جنوری(نمائندہ خصوصی )
یہ دونوں کیلئے کئی برسوں بعد پہلا موقع تھا۔
بطور وزیر اعلیٰ‘ عمرعبداللہ کم از کم گیارہ برسوں بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے مخاطب تھے اور صحافیوں کیلئے ایسی گھڑی پانچ سال بعد آئی تھی جب انہیں اس نوعیت کی تقریب میں بغیر کسی امتیاز کے مدعو کیا گیا ۔
۲۰۱۹ سے پہلے وزیر اعلیٰ اور وزراء کی پریس کانفرنسوں اور دیگر سرکاری تقاریب میں صحافیوں کو مدعو کرنا ایک عام بات تھی اور ممکن ہے کہ آئندہ بھی یہی معمول ہو گا لیکن اس بیچ کے جو پانچ سال رہے اس نے کشمیر کے میڈیا منظر نامے اور اس سے جڑی حکومتی ترجیحات کو یکسر بدل دیا … میڈیا کے’ ایکو سسٹم‘ کو تبدیل کردیا گیا ۔
اس دوران جہاں بیشتر صحافیوں کی حکومتی گلیاروں تک رسائی مسدود بنائی گئی وہیں کسی بھی سرکاری تقریب میں گنے چنے صحافیوں کو مدعو کیا گیا ۔حتیٰ کہ اس مدت کے دوران محکمہ اطلاعات کے ناظم اعلیٰ تک رسائی بھی مشکل بن گئی ۔
یہی وجہ ہے کہ آج وزیر اعلیٰ سے مخاطب ہونے والے بیشتر صحافیوں نے عمرعبداللہ کا’میڈیا سے بات چیت‘ میں مدعو کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا ۔
وزیر اعلیٰ سے بات چیت کے ودران ریاستی درجے کی بحالی ‘ مختلف ترقیاتی پرجیکٹوں کیلئے ہزاروں کنال کی اراضی کی نشاندہی ‘بجلی کی صورتحال اور دیگر موضوعات پر سوالات کئے گئے وہیں میڈیا کو در پیش مشکلات کے بارے میں بھی عمرعبداللہ کو آگاہ کیا گیا ۔
ایک سینئر صحافی نے وزیر اعلیٰ سے شکایت کی کہ محکمہ اطلاعات گزشتہ پانچ برسوں میں جموں کشمیر پولیس کے توسیعی بازو کے طور کام کرتا رہا … سرکاری تقریبات میں کن صحافیوں کو مدعو کرنا ہے اور کن کو نہیں اس کا فیصلہ پولیس کرتی تھی ۔
ایک اور صحافی نے ایکریڈٹیشن حاصل کرنے کیلئے درپیش دشواریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری صحافیوں کیلئے دہلی میں ایکریڈٹیشن حاصل کرنا آسان ہے لیکن جموں کشمیر میں نہیں ۔
بات چیت کے دوران بیتے پانچ برسوں میں صحافیوں کی گرفتاریا،’غیر منصفانہ‘ اشتہارات کی تقسیم ‘ اخبارات کی ایمپنلمنٹ میں تاخیر‘کچھ اخبارات پر سرکاری اشتہارات کی فراہمی پر روک اور اشتہارات کی اجرتوں میں اضافے جیسے اشوز بھی اٹھائے گئے ۔
نیشنل کانفرنس نے اپنے انتخابی منشور میں اظہار رائے اور پریس کی آزادی کا وعدہ کیا ہے اور وزیرا علیٰ نے آج اس کا یہ کہتے ہو ئے اعادہ کیاکہ وہ جموںکشمیر میں ایک آزاد پریس دیکھنا چاہتے ہیں ‘ جس پر کوئی وباؤ نہ ہو ‘ جس کو کوئی خبر شائع کرنا یا اسے ہٹانے کیلئے فون نہ آئے ۔انہوں نے کہا’’آج آپ سے بات چیت اسی سمت میں ایک قدم ہے ‘‘۔
عمرعبداللہ نے سرینگر میں پریس کلب کی بحالی کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے صحافیوں سے الیکشن کرکے پہل کرنے کو کہا ۔
وزیر اعلیٰ سے آج کی بات چت میں گرچہ جموںکشمیر کے ریاستی درجے کی بحالی اور اس سے جڑی باتیں ہی زیادہ تر زیر بحث آئیں لیکن کیا آج کی یہ نشست جموںکشمیر میں اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کی بحالی کی بھی شروعات ہے ؟