’ دربار مواقدام کو ختم کرنے سے دونوں خطوں کے لوگ ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہوجائیں گے ‘
جموں//
جموں کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ نے چہارشنبہ کے روز کہا کہ جموں کی انفرادیت کو کم نہیں ہونے دیا جائے گا اور ان کی حکومت دربار کی منتقلی کو بحال کرے گی۔
دربار منتقلی ایک صدیوں پرانا رواج ہے جس کے تحت سرینگر اور جموں میں موسم گرما اور سردیوں کے دوران سول سکریٹریٹ اور دیگر سرکاری دفاتر بالترتیب چھ ماہ کام کرتے تھے۔
تقریباً۱۵۰سال پہلے ڈوگرہ حکمرانوں کی جانب سے متعارف کرائی گئی اس روایت کو لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے جون۲۰۲۱ میں یہ کہتے ہوئے روک دیا تھا کہ انتظامیہ کی جانب سے ای آفس میں مکمل منتقلی سے سالانہ۲۰۰ کروڑ روپے کی بچت ہوسکتی ہے۔
تاہم اس فیصلے کو جموں کی کاروباری برادری اور سیاست دانوں سمیت مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور انہوں نے اس عمل کو دونوں خطوں کے درمیان تعلق قرار دیا۔
وزیر اعلیٰ نے کہا’’دربار اقدام ایک ایسا مسئلہ ہے جسے میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اسمبلی انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران اسے کیوں پیش نہیں کیا گیا۔ اس مسئلے نے انتخابی نتائج کے بعد ہی زور پکڑا حالانکہ ہم نے اپنے منشور اور میٹنگوں میں اس کا ذکر کیا ہے‘‘۔
وزیراعلیٰ نے کہا’’کچھ چیزوں کو صرف مالی لحاظ سے تولا نہیں جا سکتا۔ دربارمو جموں کشمیر کے اتحاد اور شمولیت کی علامت ہے۔ یہ ایک روایت ہے جو اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ حکمرانی دونوں خطوں کے لئے قابل رَسائی رہے‘‘۔
عمرعبداللہ نے اس ۱۵۰ سال پرانی روایت کے خلاف مالی دلائل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا رول صرف منافع پر توجہ مرکوز کرنا نہیں ہے۔’’ ہماری ذمہ داری تمام خطوں میں متوازن ترقی کو یقینی بنانا ہے۔ دربار مواقدام کو ختم کرنے سے دونوں خطوں کے لوگ ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہوجائیں گے اور اس اِجتماعی اتحاد کو نقصان پہنچے گا جسے ہم برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔
عمرعبداللہ نے کہا’’ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ دربار کی منتقلی کو بحال کیا جائے گا‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے یہاں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ساتھ تین گھنٹے طویل میٹنگ کی صدارت کرنے کے بعد نامہ نگاروں سے کہا کہ جموں کی اپنی اہمیت ہے اور ہم اس کی انفرادیت کو کم نہیں ہونے دیں گے۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ حکومت اپنا فیصلہ خود کرتی ہے جس کا عوام پر اثر پڑتا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا’’کسی فیصلے کے بعد، چاہے اس کا اثر صحیح ہو یا غلط، رائے حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض اوقات حکومتی نظام کے اندر صحیح رائے حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ زیادہ تر آپ ایسے لوگوں سے گھرے ہوتے ہیں جو صرف آپ کی تعریف کرتے ہیں۔ لہٰذا جب سول سوسائٹی کا اجلاس اس طرح ہوتا ہے تو زیادہ تر شرکا بغیر کسی ایجنڈے کے آتے ہیں اور اپنی رائے اور تجاویز پیش کرتے ہیں جو فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں‘‘۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ اس میٹنگ کا مقصد رائے اور تجاویز حاصل کرنا تھا تاکہ ان پر عمل درآمد کیا جاسکے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس طرح کے اجلاس سال میں دو بار جموں اور سری نگر میں بلائے جائیں گے ، ایک موسم گرما میں اور دوسرا موسم سرما میں۔
وزیر اعلیٰ نے کہا’’میٹنگ کے دوران بہت سے معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ جیسا کہ میں نے اجلاس میں کہا تھا کہ اٹھائے گئے تمام مسائل کو نوٹ کیا گیا ہے اور ہم اگلے اجلاس میں شرکاء کو کارروائی کی رپورٹ سے آگاہ کریں گے۔‘‘
اس سے پہلے وزیر اعلیٰ نے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر سول سوسائٹی کے ایک اجلاس کی صدارت کی جو مرکز کے زیر انتظام علاقے میں نیشنل کانفرنس کی قیادت والی مخلوط حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سرمائی راجدھانی میں اس طرح کی ان کی پہلی مشق ہے۔
عہدیداروں نے بتایا کہ نائب وزیر اعلی سریندر چودھری ، وزراء سکینہ ایتو ، جاوید رانا اور ستیش شرما ، وزیر اعلی کے مشیر ناصر اسلم وانی اور سینئر سول اور پولیس افسران نے تین گھنٹے سے زیادہ طویل میٹنگ میں شرکت کی۔
یہ اجلاس کاروباری برادری، وکلاء اور سیاحت کے اسٹیک ہولڈرز سمیت معاشرے کے مختلف طبقوں کو درپیش مسائل کے حل کو یقینی بنانے کے لئے وزیراعلیٰ کے عوامی رابطہ پروگرام کا حصہ تھا۔
عہدیداروں نے بتایا کہ اجلاس میں شریک نمائندوں نے اپنے مسائل اٹھائے اور ان کی فلاح و بہبود سے متعلق ان مسائل کو حل کرنے کے لئے حکومت سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا۔
عہدیداروں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ نے شرکاء کو صبر و تحمل سے سنا اور یقین دلایا کہ ان کے تمام مسائل کو مناسب وقت پر حل کیا جائے گا۔