ہماچل پردیش میںحکمران جماعت کانگریس کی ناک کے نیچے ’محبت کی دکان‘ اُس وقت بند ہو گئی جب مقامی پنچایت سے وابستہ ایک خاتون نے اپنے ہمراہ دیگر کئی خواتین کے ساتھ کشمیر کے دو شال کاروباریوں کو ہراساں کیا، انہیں دھمکیاں دی اور انہیں ہماچل پردیش آکر کاروبار نہ کرکے واپس چلے جانے کا حکم دیا جبکہ مقامی لوگوں سے بھی کہا کہ وہ کشمیر یوں سے کوئی سامان نہ خریدیں۔
ابھی اس نفرت آمیز اور نسل پرستانہ واقعہ کی صدائے باز گشت سنائی ہی دے رہی تھی کہ بی جے پی کی قیادت میں ہر یانہ سرکار کی ناک کے نیچے کو رکشیتر میں جاری میلے میں سجے ایک کشمیری کی دکان پر زعفرانی پرچم ہاتھوں میں اُٹھائے اور اسی رنگ کے لباس میں ملبوس شرپسندوں کی ایک ٹولی نے حملہ کیا، مصنوعات کو سڑک پر پھینک دیا،دکاندار کی مار پیٹ کی۔ ہماچل کے واقعہ میںملوث خاتون نے اپنے کئے پر معافی مانگی جبکہ ہریانہ میںپیش آمدہ نفرت آمیز اور نسل پرستی سے عبارت واقعہ میںملوثین شرپسندوں اور غنڈوں کو روکنے کیلئے کچھ مقامی لوگوںنے مداخلت کی اور دکاندار کو بچایا۔
کشمیرمیں ان دونوں واقعات پر شدید غم وغصہ اور برہمی کی لہر نظرآرہی ہے ۔ کشمیرنشین سیاسی جماعتوں بشمول حکمران جماعت نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی، اپنی پارٹی وغیرہ نے اپنے ردعمل میںجو انداز اور لہجہ اختیار کیا ہے وہ انداز اور لہجہ بحیثیت مجموعی کشمیری عوام کے مجروح جذبات اور احساسات کا بہ عین عکس ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر جموںخاموش ہے اور کشمیر میںرہائش پذیر اقلیتی طبقے بھی خاموش ہیں اگر چہ جموںاورکشمیر میںلوگوں کی بہت بڑی تعداد نے حالیہ ایام میں بنگلہ دیش میںہندو اقلیت کے خلاف پر تشدد واقعات کے خلاف جلوس نکالے، احتجاج بلند کیا اور اس وقت جب ان سطور کو قلم بند کیا جارہا تھا تو جموں کے کھٹوعہ میںبنگلہ دیش کے ان واقعات کے خلاف احتجاجی ریلی رواں دواں تھی۔
ملکی سطح پر کانگریس کی قیادت اور نہ ہی بی جے پی کی قیادت نے ہماچل اور ہریانہ میں کشمیریوں کے ساتھ پیش آئے ان نفرت آمیز واقعات کی مذمت کی اور نہ ہی واقعات میںملوثین کے خلاف مروجہ قوانین کو حرکت میںلاکر کوئی تادیبی کارروائی عمل میںلائی۔
ملک کے مختلف حصوں میں زیر تعلیم کشمیری طالب علموں، جائز کاروباری سرگرمیوں میںمصروف افراد زندگی کے مختلف شعبوں میںکام کرنے والے کشمیری شہریوں کے خلاف تعصب اور جنونیت اور حیوانیت کے یہ وار پہلے نہیں، ایسے واقعات اُس دورمیں بھی پیش آتے رہے جب مرکز اور ریاستوںمیں کانگریس سرکار یں برسر اقتدارتھی اور اب جبکہ مرکز اور بیشتر ریاستوں میںبی جے پی کی حکمرانی ہے کشمیریوں کونشانہ بنانے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ آخر وجہ کیا ہے ؟ کیا یہ کہ کشمیری مسلمان ہیں اور اپنے فطری دین کے تقاضوں اوراحکامات کی پابندی اور احترام کرتے ہوئے ملک کے مختلف ریاستوں سے آتے رہے ہر سال اوسط پانچ … چھ لاکھ مزدروں ، کاریگروں اور ہنر مندوں کو باوقار اور باعزت روزگار بھی فراہم کررہے ہیں اور ہر ممکن تحفظ بھی فراہم کررہے ہیں۔ رہائش کیلئے بجلی ، پانی اور دیگر مارکیٹ سہولیات سے مزین ہر سہولت وقف رکھ رہے ہیں لیکن کسی کشمیری نے آج تک کسی غیر ریاستی باشندے کے ساتھ اس نوعیت کا بہیمانہ سلوک نہیں کیا، حالانکہ مزدروں کی آڑ اور لبادے میں مختلف جرائم پیشہ بھی وارد کشمیر ہوتے رہے ہیں اور اچھی خاصی تعداد میں بھکاری، منشیات کے عادی اور مختلف امراض میںمبتلا لوگ بھی ان کی صف میں ہوتے ہیں ۔
ہماچل ہو یا ہریانہ، اُتر پردیش ہو یا مدھیہ پردیش یاگجرات ان کے رہائشوں کو یہ حق ہے کہ وہ کسی کشمیری کے ساتھ کاروبار نہ کریں، ان سے کوئی خرید وفروخت نہ کریں لیکن انہیں یہ حق نہیں کہ وہ کشمیریوں کو اپنی حیوانیت ، جنونیت ، درندگی اور نسل پرستی کا نشانہ بنائیں۔
کشمیربحیثیت مجموعی ایک کھپت والی ریاست ہے اور جو کچھ روز مرہ ضروریات کے حوالہ سے کشمیر کی ضروریات ہیں وہ ملک کی مختلف منڈیوں، فیکٹریوں اور مارکیٹوں سے ہی کشمیر پہنچ رہا ہے۔ لیکن اگر منظرنامہ یہی رہا اور کشمیرکے طالب علموں اور جائز کاروباری سرگرمیوں میںدن رات کی عرق ریزی کرکے اپنے لئے روزی روٹی کا بندوبست کرنے والے کشمیریوں کے ساتھ بائیکاٹ کا نعرہ جاری رہے اور انہیں بربریت کا نشانہ بنایا جاتا رہے تو کشمیرکے لئے متبادل آپشن ناگزیر بن سکتا ہے۔
کشمیرنے گذشتہ دس سال کے دوران وزیراعظم نریندرمودی کے نعرے سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کو عملی جامہ ہی نہیں پہنایا بلکہ اس کو اپنا نصب العین اور مشعل راہ بھی بنایا۔ نہ بنایا اور اپنایا ہوتا تو کشمیر میں امن اور استحکام کا جو منظرنامہ فی الوقت نظرآرہا ہے بلکہ زمینی سطح پر موجود بھی ہے نہ ہوتا۔ لیکن اس عملی اشتراک، تعاون اور ہر بات پر لبیک کہنے کے باوجود کچھ جنون پرست اور نفرتوں کی دیواریں کھڑا کرنے والے عنصر اور گروپ کشمیریوں کو نشانہ بنانے سے چوکتے نہیں!
ان واقعات کی ہر سو صدائے باز گشت سنائی دیئے جانے کے باوجود حکمران جماعت بی جے پی کا صدر اوراپوزیشن پارٹی کانگریس کی سونیا گاندھی بشمول راہل گاندھی اور دوسرے ذمہ دار خاموش ہیں، تماشائی کا رول اداکررہے ہیں، ان کا یہ خاموش ردعمل اس تاثر کو کشمیرکے طول وارض میں تقویت بھی پہنچا رہا ہے اور استحکام بھی عطا کررہا ہے کہ اس نوعیت کے معاملات جو ناخوشگوار ہیں، نفرت اور شرارت آمیز ہیں، صریح ہجومی دبدبہ اور تشدد سے عبارت ہیں کو خاموش سرپرستی اور آشیرواد حاصل ہے ، ورنہ وہ اتنی جرأت نہیں کرتے، وہ جرأت اس لئے بھی کرتے ہیںکہ متعلقہ علاقوں کی پویس مشینری عموماً ان کی پشت پر کھڑی دیکھی جارہی ہے۔
اگر چہ ان دونوں واقعات کے حوالہ سے کشمیرسے اب تک شدید غم وغصہ اور برہمی کا برملا اظہار سامنے آیا ہے لیکن اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ آنے والے ایام میں ایسے ناخوشگوار واقعات پیش نہیں آئیں گے کیونکہ جوعنصر اس نوعیت کے واقعات میںعموماً ملوث نظرآتے رہے ہیں ان کا کام ہی نفرت پھیلانا اورآبادی کے مختلف فرقوں کے درمیان تفرقہ ڈالنا اور مختلف نریٹوز اختیار کرکے خوف ودہشت کاماحول پیدا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ یہ ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے کہ حالیہ چند دہائیوں کے دوران اس ذہنیت اور اپروچ کے حامل عنصر حوصلہ پاتے رہے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کیلئے کئی ایک ادارے اور تنظیمیں سماج میں موجود ہیں۔ ایسے ہی سوچ اور نظریہ کے حامل کوئی اگر اقلیتی طبقوں سے وابستہ ہے تو اسے دہشت گرد قرار دے کر سلاخوں کے پیچھے سڑنے کیلئے ڈالدیا جاتا ہے لیکن ان فرنج عنصروں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیںہورہی ہے۔ پولیس اگر کہیں کسی جگہ حرکت میں آبھی جاتی ہے یا کوئی ایف آئی آر واقعہ کے تعلق سے رجسٹر بھی کرتی ہے تو وقت گذرے ان معاملات کا کہیں اتہ پتہ نہیں ملتا۔