سرینگر/۹دسمبر
گورنمنٹ میڈیکل کالج (جی ایم سی) سرینگر کے میڈیکل اسٹوڈنٹس نے این ای ای ٹی پی جی فریم ورک کے تحت پوسٹ گریجویٹ داخلوں میں اوپن میرٹ (او ایم) نشستوں میں زبردست کمی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
طالب علموں کا دعویٰ ہے کہ ایس او 176 (15 مارچ، 2024) اور ایس او 305 (21 مئی، 2024) کے نفاذ سمیت حالیہ پالیسی تبدیلیوں نے میرٹ کی بنیاد پر داخلوں کو بری طرح متاثر کیا ہے، جس کی وجہ سے خواہشمند ڈاکٹروں میں بڑے پیمانے پر عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔
نیٹ پی جی طلبا نے پیر کے روز ریزویشن پالیسی کے خلاف احتجاج کیا اور الزام لگایا کہ سال2018سے قبل اوپن میرٹ75فیصد تھا جو آج کی تاریخ میں صرف27فیصد رہ گیا ہے ۔
جی ایم سی طلبا نے کہا کہ اس سے مستحق طلباءمیں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے جنہوں نے اعلیٰ عہدوں کے حصول کے لئے سخت محنت کی ہے۔ان کا سوال تھا” 90 ہزار رینک والے طالب علم کو ایم ڈی ریڈیالوجی کیسے مل سکتی ہے جبکہ 739 رینک والے طالب علم کو اسی برانچ میں سیٹ دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے“۔
طلباءنے قاعدہ 17 کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے’ظالمانہ اور جموں و کشمیر کے لئے منفرد‘ قرار دیا۔ اس اصول کے تحت او ایم میں نشست حاصل کرنے والے ریزرو کیٹیگری کے امیدوار اعلیٰ اسپیشلٹیز میں اپ گریڈ ہوسکتے ہیں، لیکن خالی ہونے والی او ایم سیٹ کو او ایم پول میں واپس کرنے کے بجائے ریزرو کیٹیگری میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ اس سے ریزرو کیٹیگری کے امیدواروں کو دوہرا فائدہ ہوتا ہے اور او ایم امیدواروں کے لئے نشستوں کی تعداد میں مزید کمی آتی ہے۔
ایک اور احتجاجی طالب علم نے کہا”بھارت کی کسی اور ریاست میں ایسی پالیسی نہیں ہے“۔
طلباءنے ایم ڈی / ایم ایس جیسے خصوصی کورسز میں میرٹ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے دلیل دی کہ ان شعبوں میں معیاری صحت کی دیکھ بھال کو یقینی بنانے کے لئے اعلی درجے کی اہلیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ایم بی بی ایس کے تمام طالب علم ایک جیسے حالات میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، یکساں وسائل تک رسائی حاصل کرتے ہیں، اور یکساں طور پر تشخیص کی جاتی ہے، جس سے میرٹ کی بنیاد پر انتخاب ایک منصفانہ معیار بن جاتا ہے۔
مزید برآں، طلباءنے جموں کشمیر میں پی جی اور ڈی ایم کورسوں کے لئے بانڈ سسٹم کے نفاذ کا مطالبہ کیا، جیسا کہ دیگر ریاستوں میں کیا جاتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس سے ڈاکٹروں کو پسماندہ علاقوں میں خدمات انجام دینے کی ترغیب ملے گی اور خطے میں صحت کی دیکھ بھال کے عدم مساوات کو دور کیا جاسکے گا۔
طلبا نے کہاکہ یہ ہمارے ساتھ نا انصافی ہے اور ہمیں سڑکوں پر آنے کے لئے مجبور کیا جارہا ہے ۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو اس معاملے میں فوری مداخلت کرنی چاہئے ۔
اطلاعات کے مطابق ریزرویشن کا معاملہ اب نوکریوں تک محدود نہیں رہا بلکہ مختلف میڈیکل کالجوں میں زیر تعلیم نیٹ پی جی طلبا کو بھی ایم ڈی اور ایم ایس میں داخلہ لینے کی خاطراب اس نا انصافی کے مرحلے سے گزرنا پڑ رہا ہے ۔
نامہ نگار نے بتایا کہ سرینگر میں نیٹ پی جی طلبا نے احتجاج کیا اور الزام لگایا کہ ان کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے ۔
پی جی طالب علم نے نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران کہاکہ ایم ڈی اور ایم ایس کےلئے سال2018سے قبل اوپن میرٹ میں75فیصد کوٹا تھا لیکن آج کی تاریخ میں یہ صرف27فیصد تک پہنچ گیا ہے جو سراسر نا انصافی ہے ۔
طلبا نے کہاکہ ایم ایس اور ایم ڈی کےلئے ایس آر او ۹۴کے تحت اوپن میرٹ طلبا کو75فیصد کوٹاملتا تھا لیکن اب نئی ریزرویشن پالیسی کے نتیجے میں مختلف کٹیگری کے طلبا ہی اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔
طلباءنے کہاکہ اگر27فیصد سیٹیں ہی اوپن میرٹ طلبا کے لئے مخصوص رکھی جائےں تو ہم کہاں جائیں لہذا ہمارے ساتھ انصاف ہونا چاہئے ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اتنا ہی نہیں کہ جب کم نمبرات والے پی جی طلبا ایم ایس اور ایم ڈی کےلئے منتخب ہونگے تو اس سے جموں وکشمیر کے صحت شعبے پر بھی منفی اثرات مرتب ہونگے ۔
مظاہرین کا مزید کہنا تھا کہ یہ پالیسی صرف جموں وکشمیر میں لاگو ہے ملک کی کسی بھی ریاست میں 75فیصد ریزرویشن پالیسی نہیں ہے ۔
نیٹ پی جی طلبا نے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور جموں وکشمیر کے وزیرا علیٰ عمر عبداللہ سے فوری مداخلت کی اپیل کی ہے ۔انہوں نے کہاکہ ڈاکٹروں کا یہ کام نہیں کہ وہ احتجاج کریں لیکن ہمیں اس کے لئے مجبور کیا جارہا ہے ۔