ہم تو صاحب یہ بھی نہیں کہہ سکتے ہیں کہ اب آگ لگنے پر کنواں کھودا جارہاہے… نہیں صاحب ہم ایسا بھی نہیں کہ سکتے ہیں اور… اور اس لئے نہیں کہہ سکتے ہیں کہ… کہ یہ آگ سال بھر لگی رہتی ہے… اگر ایسا نہیں ہو تا تو… تو جموں کشمیر جیسی ایک چھوٹی جگہ میں سال کے پہلے ۹ ماہ میں ساڈھے چار ہزار سڑک حادثے نہیں ہو تے… ان حادثوں میں زائد از ۶۲۰ لوگ مارے نہیں جاتے …۶ ہزار سے زیادہ زخمی نہیں ہو ئے ہوتے… بالکل بھی نہیں ہوئے ہوتے … اس لئے صاحب اب جو یہ کنواں کھودا جارہاہے… یا کھودنے کی کوشش ہو رہی ہے… اس کنویں کو کھودنے میں دیر نہیں بلکہ بہت دیر ہو ئی ہے…اور یہ کنواں کھودنے کی بات بھی اس لئے کی جا رہی ہے کیونکہ روز گزشتہ ٹینگہ پورہ سڑک حادثے میں دو طلباء ہلاک ہو گئے… یقینا یہ حادثہ پیش نہیں ہو تا … اور بالکل بھی نہیں ہوتا اگر جاں بحق طلبا کے والدین نے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہو ئے نابالغ اور بچوں کو گاڑی چلانے کیلئے نہیں دی ہوتی… جن کے پاس ممکنہ طور پر لائسنس بھی نہیں دی تھی… لیکن صاحب بات یہیں پر ختم نہیں ہو تی ہے… بالکل بھی نہیں ہو تی ہے کہ … کہ اس حادثے کیلئے والدین ہی ذمہ دار نہیں ہو سکتے ہیں… اور اس لئے نہیں ہو سکتے ہیں کہ … چھوٹے اور نابالغ بچے بغیر لائسنس گاڑیاں جنگل میں نہیں بلکہ شہر و گام کی سڑکوں پر چلاتے ہیں جہاں ٹریفک پولیس کا عملہ موجود رہتا ہے… ٹریفک پولیس کی ناک کے نیچے کم سن بچے گاڑیاں ‘اسکوٹر اور سکوٹیاں چلاتے رہتے ہیں… بڑے خطر ناک انداز میں چلاتے ہیںاور … اور بغیر روک ٹوک کے چلاتے ہیں… اس لئے چلاتے ہیں کیونکہ انہیںمعلوم ہے کہ انہیں کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہیں ہے… ان میں قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اہلکاروں کا ڈر بالکل بھی نہیں ہے اور… اور اس لئے نہیں ہے کیونکہ یہ ادارے اور ان اداروں کے اہلکار اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں ناکام ہوگئے ہیں… ٹریفک پولیس کی ساری توجہ اور توانائی صرف اس بات پر صَرف ہو تی ہے کہ… کہ کہیں کوئی گاڑی کسی غلط جگہ پر کھڑی تو نہیں ہے… برق رفتاری میں اس کا چالان تیار کیا جاتا ہے… اوربس کام ختم‘ ذمہ داری ختم ‘ ڈیوٹی ختم … ٹینگہ پورہ سڑک حادثے کے بعد جو کنواں کھودا جارہا ہے… قانون نافذ کرنے کی جو کوشش کی جا رہی ہے… اگر پہلے سے ایسا کیا گیا ہو تا تو… تو شاید ٹینگہ پورہ حادثہ نہیں ہوتا… بالکل بھی نہیں ہوتا ۔ ہے نا؟