’جموں میں لوگ ایل جی انتظامیہ سے ناراض تھے لیکن وہ غصہ پولنگ بوتھوں پر کیوں نظر نہیں آیا‘
جموں//
جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ‘ عمر عبداللہ نے ہفتہ کے روز کہا کہ ان کی حکومت اسمبلی انتخابات میں ووٹنگ کے انداز پر نہیں چلائی جائے گی کیونکہ وہ مرکز کے زیر انتظام علاقے (یو ٹی) کے دونوں صوبوں میں لوگوں کے چہروں پر ’گمشدہ مسکراہٹ‘ کو واپس دیکھنا چاہتے ہیں۔
چہارشنبہ کے روز سرینگر میں نئی حکومت کا چارج سنبھالنے والے عمر عبداللہ کا سرمائی دارالحکومت میں نیشنل کانفرنس (این سی) کے صدر دفتر پہنچنے پر پرتپاک استقبال کیا گیا۔
بی جے پی نے جموں میں انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور دوسری سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری۔ حال ہی میں ہوئے جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات میں ، جس کے نتائج کا اعلان ۸؍ اکتوبر کو کیا گیا تھا ، بی جے پی نے۹۰ نشستوں میں سے ۲۹پر کامیابی حاصل کی اور ۶۴ء۲۵ فیصد ووٹ شیئر حاصل کیا۔
وزیر اعلی بننے کے بعد عمر عبداللہ کا جموں کا یہ پہلا دورہ تھا جس میں ان کی پارٹی نے۴۲ نشستیں حاصل کیں اور۴۳ء۲۳ فیصد ووٹ حاصل کیے۔ اس کی اتحادی کانگریس نے چھ اور سی پی آئی (ایم) نے ایک نشست جیتی۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ جب انتخابی نتائج سامنے آئے تو کچھ لوگوں نے افواہیں پھیلانا شروع کردیں کہ جموں کو سزا دی جائے گی کیونکہ انہوں نے این سی،کانگریس اتحاد کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیا ہے۔ ’’لیکن میں پہلے دن ہی یہ واضح کر دیتا ہوں کہ یہ حکومت سب کے لیے ہوگی، قطع نظر اس کے کہ کسی نے اسے ووٹ دیا ہے یا نہیں‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس کو مفتی محمد سعید، غلام نبی آزاد اور ان کی قیادت والی سابقہ مخلوط حکومتوں کی طرح نائب وزیر اعلی مقرر کرنے کی کوئی مجبوری نہیں ہے تاکہ دونوں علاقوں کو نمائندگی دی جاسکے۔
عمرعبداللہ نے کہا’’کانگریس نے ابھی تک نئی کابینہ میں شامل ہونے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ہم نے ایک فیصلہ لیا اور اپنی پارٹی سے ایک نائب وزیر اعلی (سریندر چودھری) مقرر کیا‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ ان لوگوں کے لئے جواب تھا جو انتخابی مہم کے دوران کہا کرتے تھے کہ نیشنل کانفرنس مسلمانوں کی پارٹی ہے اور کشمیر کی خاندانی پارٹی ہے جو جموں کے رہنماؤں کو برداشت نہیں کر سکتی۔’’ اب ہمارے پاس ایک ڈپٹی چیف منسٹر ہے جو ایک ہندو ہے اور اس کا میرے خاندان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے‘‘۔
بی جے پی کا نام لئے بغیر انہوں نے کہا کہ حد بندی اور ریزرویشن ایک پارٹی کو فائدہ پہنچانے کیلئے کیا گیا تھا لیکن سرکاری مشینری کے استعمال سمیت تمام ہتھکنڈے آپ کو انتخابات جیتنے میں کبھی مدد نہیں کرسکتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے کہا’’یہاں پہنچ کر (حکومت بنانے سے) آسان کام کیا جاتا ہے۔ اب مشکل کام شروع ہوتا ہے کیونکہ ہمیں عوام کی امنگوں کو پورا کرنا ہے‘انہیں ان کی مشکلات سے نکالنا ہے اور حکومت اور عوام کے درمیان خلیج کو ختم کرنا ہے‘‘۔
پارٹی کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر اجے کمار سدوترا کی استقبالیہ تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے عبداللہ نے کہا کہ ’’میں یہ پوچھنے پر مجبور ہوئے کہ لیفٹیننٹ گورنر کی زیرقیادت انتظامیہ کے خلاف لوگوں(جموں) کا غصہ پولنگ بوتھوں پر کیوں نہیں دیکھا گیا‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے کہا’’کشمیر، وادی چناب اور پیر پنجال کے لوگوں نے ہمیں ووٹ دے کر اپنے غصے کا اظہار کیا۔ ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ جموں میں لوگ’دربار موو‘ کو روکنے، اسمارٹ میٹروں کی تنصیب، بجلی کے زیادہ بلوں، پانی کی قلت اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری پر ناراض ہیں لیکن پولنگ بوتھوں پر غصہ نظر نہیں آیا۔ اس کی کیا وجہ ہے‘‘؟
عمرعبداللہ نے کہا’’ہمیں یہ سمجھنا ہوگا اور اگر وہ (بی جے پی سے) ناراض نہیں ہیں تو ہمیں زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کے لئے سب کچھ ٹھیک ہے۔ لیکن اگر وہ غصے میں ہیں اور اپنے غصے کے باوجود انہوں نے ایک فریق کو ووٹ دیا ہے تو ہمیں اس کی وجوہات تلاش کرنی ہوں گی‘‘۔
حالانکہ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وجوہات جو بھی ہوں، وہ جانتے ہیں کہ ان کی حکومت ووٹنگ پیٹرن پر نہیں چلے گی۔انہوں نے کہا’’الیکشن ختم ہو چکے ہیں اور عوام نے اپنا مینڈیٹ دے دیا ہے۔ حکومت بن چکی ہے اور اب ہماری باری ہے کہ ہم عوام تک پہنچیں اور ان کے مسائل حل کریں۔۲۰۱۸ کے بعد (جب پی ڈی پی،بی جے پی حکومت گر گئی) لوگوں کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اور وہ مایوس ہیں‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے لوگوں کو یقین دلایا کہ ان کی حکومت ان کی بات سنے گی اور آپ کی آواز اب اندھیرے میں گم نہیں ہوگی۔انہوں نے پارٹی کارکنوں سے کہا کہ وہ اپنے فائدے کے لئے حکومت کا غلط استعمال نہ کریں۔
عمرعبداللہ نے کہا’’یہ ہمارے لیے نہیں ہے کیوں کہ ہم نوکر ہیں اور مالک نہیں ہیں۔ اصل مالک عوام ہیں اور ہمیں ان کے مسائل کو کم کرنے اور ان کے چہروں پر مسکراہٹ واپس لانے کے لئے ۲۴ گھنٹے کام کرنا ہوگا جو ہم گزشتہ چھ سے آٹھ سالوں سے نہیں دیکھ سکے‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے پارٹی کارکنوں سے یہ بھی کہا کہ وہ اپنا دل نہ ہاریں اور کہا کہ جموں و کشمیر فی الحال ایک مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہے اور جو زیادہ دیر تک ایسا نہیں رہ سکتا۔ان کاکہنا تھا’’ہمیں اپنے حقوق واپس ملیں گے۔ ہم ان تمام چیزوں کیلئے لڑیں گے جو ہم سے چھین لی گئی ہیں اور ناراض یا مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘