جموں//
جموں کشمیر اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی شکست کے بعد طارق حمید قرہ کی پارٹی یونٹ کے صدر کے طور پر تقرری پر بحث چھڑ گئی ہے۔
تاہم قرہ کے وفاداروں کا کہنا ہے کہ وہ ایک گمنام ہیرو کے طور پر ابھرے ہیں کیونکہ انہوں نے انتخابات سے چند ہفتے قبل جموں کشمیر کانگریس کا چارج سنبھالنے کے باوجود شمالی کشمیر میں دو نئی نشستوں سمیت پارٹی کو قابل ذکر کامیابیاں دلائی ہیں۔
نیشنل کانفرنس (این سی) کی اتحادی کانگریس اگست ۲۰۱۹ میں آئین کے آرٹیکل ۳۷۰کی دفعات کو منسوخ کرنے اور سابق ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے بعد پہلے اسمبلی انتخابات میں صرف چھ نشستیں جیت سکی… کشمیر میں پانچ اور جموں میں ایک۔
کانگریس کی اعلیٰ قیادت سے مشاورت کے بعد قرہ نے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی ہے جو خاص طور پر جموں خطے میں پارٹی کے خراب انتخابی مظاہرہ کی وجوہات کا پتہ لگائے گی اور تنظیم کو مضبوط بنانے کیلئے اقدامات تجویز کرے گی۔
سابق وزیر قرہ کو۱۶؍ اگست کو وکر رسول وانی کی جگہ جموں و کشمیر پردیش کانگریس کمیٹی کا صدر مقرر کیا گیا تھا۔ قرہ کی تقرری کا فیصلہ مرکز کے زیر انتظام علاقے میں اسمبلی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہوا۔
این سی،کانگریس اتحاد نے۴۹ نشستوں کے ساتھ اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ نیشنل کانفرنس ۴۲ نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری۔ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے چہارشنبہ کے روز چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف لیا جس کے بعد اتحاد نے اپنی حکومت تشکیل دی۔
وانی، سابق نائب وزیر اعلی تارا چند، جموں و کشمیر کانگریس کے کارگزار صدر رمن بھلا اور کئی سابق وزراء ان امیدواروں میں شامل تھے جنہوں نے انتخابات میں شکست کا مزہ چکھا۔
کانگریس کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا’’ پارٹی امیدواروں کی اکثریت کی شکست کیلئے قرہ کو مورد الزام ٹھہرانا ناانصافی ہے۔ ان کی قیادت میں عرفان حفیظ لون اور نظام الدین بٹ نے پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور شمالی کشمیر کے واگورا کریری اور باڈی پورہ حلقوں سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی جبکہ قرہ نے خود سرینگر میں سینٹرل شیلٹنگ سیٹ سے کامیابی حاصل کی۔ پارٹی نے جنوبی کشمیر میں تین میں سے دو نشستیں بھی حاصل کی ہیں‘‘۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جو رہنما اپنی ناکامیوں کی وجہ سے انتخابی مقابلہ ہار گئے تھے وہ اب قرہ کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا’’وہ قرہ کی کامیابی پر ناراض ہیں، جس نے پارٹی کو دوبارہ زندہ کیا ہے‘‘۔
ذرائع کے مطابق، کانگریس رہنماؤں کے ایک گروپ نے ایک میٹنگ کی ہے اور پارٹی کی خراب انتخابی کارکردگی کے لئے قرہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ قائدین کانگریس کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کرنے اور قرارداد پیش کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے رہنما نے کہا کہ قرہ کی کامیابیاں ان کے پاس موجود مختصر وقت اور ڈیمیج کنٹرول کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے مزید متاثر کن ہیں۔انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر کی سیاست میں قرہ کے غلبے سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انہوں نے ۲۰۱۴ کے لوک سبھا انتخابات میں سابق وزیر اعلی اور نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ کو شکست دی تھی۔
انہوں نے کہا’’ان کی قیادت نے پارٹی کو نئی طاقت بخشی ہے، جس سے وہ جموں و کشمیر کے سب سے بڑے رہنماؤں میں سے ایک بن گئے ہیں‘‘۔
دریں اثنا، کانگریس کے کئی رہنماؤں نے پارٹی کے خراب انتخابی مظاہرہ کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لئے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تشکیل کا خیرمقدم کیا۔
رہنماؤں نے ایک بیان میں کہا کہ پارٹی کے مفادات کی بہتری کے لئے پارٹی سربراہ کی سنجیدگی سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خود جموں خطے میں کانگریس امیدواروں کی شکست کی وجوہات جاننا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کمیٹی کانگریس صدر ملکارجن کھرگے اور لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہول گاندھی سمیت پارٹی ہائی کمان کے علم میں سچائی لانے کی پوری کوشش کرے گی تاکہ وہ مناسب کارروائی کریں۔