سرینگر//(ویب ڈیسک)
وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے پاکستان کو اس کی سرزمین سے ایک واضح پیغام دیتے ہوئے چہارشنبہ کے روز کہا کہ دہشت گردی ، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی جیسی’تین برائیوں‘ کی وجہ سے سرحد پار سرگرمیوں سے تجارت ، توانائی کے بہاؤ اور رابطوں کی حوصلہ افزائی کا امکان نہیں ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جے شنکر نے زور دے کر کہا کہ تجارت اور رابطے کے اقدامات کو علاقائی سالمیت اور خودمختاری کو تسلیم کرنا چاہئے اور اعتماد کی کمی پر ’ایماندارانہ بات چیت‘کرنا ضروری ہے۔
جے شنکر نے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان حکومت (سی ایچ جی) کی کونسل کے ۲۳ویں اجلاس میں نواز شریف کے افتتاحی خطاب کے فوراً بعد یہ بات کہی۔
ان کا یہ تبصرہ مشرقی لداخ میں ہندوستانی اور چینی فوجیوں کے درمیان جاری فوجی تعطل اور بحر ہند اور دیگر اسٹریٹجک پانیوں میں چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت پر تشویش کے درمیان آیا ہے۔
وزیر خارجہ نے پاکستان کا نام لیے بغیر کہا’’اگر سرحد پار سرگرمیوں کو دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کی نشاندہی کی جاتی ہے، تو ان سے تجارت، توانائی کے بہاؤ، رابطے اور لوگوں کے درمیان تبادلوں کی حوصلہ افزائی کا امکان نہیں ہے‘‘۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر اعتماد کا فقدان ہے یا تعاون ناکافی ہے، اگر دوستی میں کمی آئی ہے اور اچھی ہمسائیگی کہیں غائب ہے تو یقینی طور پر غور و فکر کرنے کی وجوہات موجود ہیں اور اس سے نمٹنے کی وجوہات موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ’’یہ تبھی ممکن ہے جب ہم چارٹر کے ساتھ اپنے عزم کا اعادہ کریں گے کہ ہم تعاون اور انضمام کے فوائد کو مکمل طور پر محسوس کرسکتے ہیں‘‘۔
جے شنکر منگل کے روز اسلام آباد پہنچے تھے اور تقریباً ایک دہائی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے پہلے ہندوستانی وزیر خارجہ بن گئے تھے۔ انہوں نے پاکستان کے دارالحکومت میں شنگھائی تعاون تنظیم سی ایچ جی سربراہ اجلاس میں بھارتی وفد کی قیادت کی۔
اجلاس سے قبل وزیراعظم نواز شریف نے جے شنکر سے ہاتھ ملایا اور جناح کنونشن سینٹر میں ان کا اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے دیگر رہنماؤں کا پرتپاک استقبال کیا۔
اپنے خطاب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ تعاون باہمی احترام اور خودمختاری کی مساوات پر مبنی ہونا چاہئے اور اگر گروپ باہمی اعتماد کے ساتھ اجتماعی طور پر آگے بڑھتا ہے تو شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو بہت فائدہ ہوسکتا ہے۔
جئے شکر کا کہنا ہے کہ ہم مشکل وقت میں مل رہے ہیں جب دنیا میں دو بڑے تنازعات جاری ہیں اور کووڈ جیسی وبا نے ترقی یافتہ ممالک کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ شدید موسمی حالات، سپلائی چین کی غیر یقینی صورتِ حال اور مالیاتی عدم استحکام ترقی کی راہ میں حائل ہیں اور قرض کا بوجھ ایک سنگین مسئلہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آج کی تیزی سے بدلتی ہنگامہ خیز دنیا میں شنگھائی تعاون تنظیم کو اس قابل ہونا چاہیے کہ ہمیں درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے۔
جے شنکر کا کہنا ہے کہ اس کا جواب ہماری تنظیم کے چارٹر میں موجود ہے۔ ایس سی اور کا مقصد باہمی اعتماد، دوستی اور اچھی ہمسائیگی کو مضبوط بنانا ہے۔ جے شنکر کا کہنا ہے چارٹرمیں چیلنجز واضح ہیں اور وہ تین ہیں: دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی۔
ان کا کہنا ہے کہ ان حالات میں ہمیں ایماندارانہ گفتگو کی ضرورت ہے، اگر اعتماد کی کمی ہے یا تعاون ناکافی ہے، اگر دوستی میں کمی ہے اور اچھی ہمسائیگی کہیں ناپید ہو چکی ہے تو یقیناً خود احتسابی کی ضرورت ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ عالمگیریت اور ری بیلینسنگ ایسی حقیقتیں ہیں جن سے فرار ممکن نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایس سی او ممالک کو اس حوالے سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم تجارت اور ٹرانزٹ کے متعلق اپنی اپنی مرضی کے فیصلے لیں گے تو ایس سی او ترقی نہیں کر سکتی۔
جئے شنکر کا کہنا ہے کہ صنعتی تعاون سے مسابقت میں اضافہ ہو سکتا ہے اور روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔