چلئے صاحب اپنے گورے گورے بانکے چھورے ‘عمرعبداللہ نے اپنے سر پر کانٹوں کا تاج پہن ہی لیا …چاہتے نہ چاہتے ہو ئے پہن ہی لیا… ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ تاج میں ہیرے گھڑے ہوں یا پھر کانٹے لگے ہو ں … تاج تو تاج ہے …اور اسی تاج کو اپنے عمر صاحب نے بھی پہن لیا ۔اگر ماضی کوئی حقیقت رکھتا ہے‘ اس کے کچھ معنی ہیں تو… تو پھر ہمیں عمر صاحب کے وزیر اعلیٰ بننے سے ڈر لگتا ہے… لیکن… لیکن ہم اللہ میاں سے دعا کریں گے کہ …کہ جس طرح اپنے کشمیر میں تب سے بہت کچھ بدلا …امید ہے کہ عمر صاحب میں بھی بہت کچھ بدل گیا ہوگا… وہ سب کچھ بدل گیا ہو گا ‘ جو ہم نے ان کے پہلے دورحکومت میں دیکھا تھا ۔خیر!خوشی کے اس موقع پر ہم آج اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتے ہیں… بالکل بھی نہیں کہنا چاہتے ہیں سوائے اس ایک بات کے کہ… کہ کسی شاعر نے کہا تھا… یہ کہا تھا کہ … ’یہ عشق نہیں آسان اتنا ہی سمجھ لیجئے … اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے‘… اپنے عمر صاحب کو بھی اس آگ کے دریا میں ڈوب کر جانا پڑے گا… انہیں اس میں ڈوبنا ہی ہو گا… اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے ۔ لوگوں نے انہیں جو بھاری منڈیٹ دیا ہے… اس کا وزن ان کے کاندھوں پر اتنا زیادہ ہے کہ…کہ ہمیں ڈر ہے… جی ہاں ہم سچ میں کہہ رہے ہیں کہ… کہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں یہ اسی وزن کے تلے دب نہ جائیں‘ڈوب نہ جائیں ۔آسان نہیں ہے‘ گزشتہ برسوں میں کشمیر میں جو کچھ بھی ہوا… یا جوکچھ بھی کیا گیا ‘ اس کے بعد وزیر اعلیٰ بننا … جموں کشمیر یوٹی کا وزیر اعلیٰ بننا اور… اور پھر ڈیلیور کرنا ‘ کام کرنا … اللہ میاں کی قسم آسان نہیں ہے ۔۲۰۰۸ سے ۲۰۱۴ تک ‘ جب عمر صاحب پہلی بار وزیر اعلیٰ بن گئے تھے…یہ جناب وزیر اعلیٰ نہیں بلکہ ایک باد شاہ تھے … بادشاہ اس لحاظ سے کہ ان کے پاس اختیارات تھے… گرچہ اُس وقت بھی کشمیر میں کرفیو کب لگے گا اور اس میں رعایت کب دی جائیگی ‘ اس کا اعلان بھی وفاقی داخلہ سیکریٹری کرتے تھے… لیکن پھر بھی اختیارات تھے اور… اور بے پناہ تھے۔ آج عمر صاحب کے پاس محدود اختیارات ہیں اور ان سے غیر محدود توقعات ہیں… ان دونوں میں یہ کیسے توازن پیدا کریں گے… یہ ان کا سب سے بڑا امتحان ہے اور… اور ہاں چیلنج بھی ۔ ہے نا؟