بدھ, مئی 14, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

توقع ہے کہ عمر عوامی اعتماد کی لاج رکھیں گے

ٹکرائو کے بغیر مرکز سے معاملات کا حل تلاش کریں گے

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-10-17
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

نیشنل کانفرنس نے اقتدار کے حوالہ سے اپنی ایک اور اننگز کا آغاز کردیا ہے۔ فرق یہ ہے کہ اب تک وہ جموں وکشمیر ریاست کے تناظرمیں برسراقتدار آتی رہی لیکن اب کی بار بے اختیار مرکزی نگرانی والے تقسیم شدہ کشمیراور جموں پر مشتمل محدود خطے کے اقتدار کی سرپرست کی حیثیت میں۔
حالیہ الیکشن میں وادی اور وادی سے باہر جموں خطے کے بعض انتخابی حلقوں میںکامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعدعمرعبداللہ کی قیادت میں چھ رکنی وزارتی کونسل نے حلف اُٹھالیا۔ الیکشن نتائج سامنے آنے کے فوراً بعد جموں سے یہ آوازیں اُبھرنا شروع ہوگئی کہ دوخطوں کے درمیان واضح سیاسی تقسیم کے تناظرمیں نیشنل کانفرنس کی قیادت میںجو حکومت تشکیل پانے جارہی ہے اس میں جموں کے مفادات، نمائندگی اور حصہ داری کے تعلق سے کیسے تحفظ کو یقینی بنایاجائیگا۔
اس سوال ، جس کو بعض متعصب سیاسی حلقے کشمیر مخصوص حکومت کے ہاتھ سے جموں کے ساتھ بقول ان کے ایک اور امتیاز اور عدم مساوات کااختراعی راگنی کاالاپ کر ایک اور دورکا آغاز کے طور پیش کرکے جذبات کو اُکسانے کی بھر پور کوشش کرتے رہے کو وزارتی کونسل کی جو ہیت ترکیبی اُبھر کر سامنے آئی ہے کی وساطت سے جواب ہی نہیں دیا گیا بلکہ ان کے چہروں پر یہ ہیت ترکیبی زناٹے دار تھپڑ سے کہیں زیادہ حیثیت رکھتی ہے۔
جموں، جموںشہر کا نام نہیں بلکہ یہ خطہ دس اضلاع پر مشتمل ہے ۔ اس خطے کیلئے مخصوص ۴۳؍ انتخابی حلقوں میں سے بی جے پی کو صرف ۲۹؍حلقوں سے کامیابی ملی باقی ماندہ ۱۴؍ انتخابی حلقوں سے آزاد، کانگریس اور نیشنل کانفرنس سے وابستہ اُمیدوار کامیاب ہوئے۔ وزارتی کونسل میں نوشہرہ حلقہ انتخاب سے کامیاب اُمیدوار سریندر چودھری کو نائب وزیراعلیٰ کی حیثیت سے نمائندگی تفویض کرکے ان متعصب زبانوں کو لگام دی گئی ہے جو ابھی سے امتیاز کی پرانی اور روایتی راگنی کے سہارے جموں خطے میںسیاست کرتے آرہے ہیں۔چھمب انتخابی حلقے سے کامیاب آزاد اُمیدوار ستیش شرما اور مینڈھر سے کامیاب اُمیدوار جاوید رانا کی وزارتی کونسل میں نمائندگی سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ فی الحال کشمیر اور جموں کو وزارتی کونسل میں برابر اور مساوی نمائندگی دی گئی ہے۔ وزارتی کونسل کی اس ہیت ترکیبی میں سوشل میڈیا اور مخصوص ذہنیت کی کچھ ٹیلی ویژن چینلوںکیلئے بھی واضح پیغام ہے کہ وہ جموں وکشمیر کے حوالہ سے اپنے یکطرفہ نریٹوز سے اجتناب کریں جن کا بُنیادی مدعا اور مقصد فساد اور شرانگیزی سے ہے۔
کانگریس نے انتخابی گٹھ جوڑ میں شریک ہونے کے باوجود تشکیل پانے جارہی پہلی وزارتی کونسل میں اپنے لئے کیوں نمائندگی نہیں لی یا این سی نے دینے سے انکار کردیا یہ ابھی تک واضح نہیں البتہ کانگریس کے یوٹی صدر نے حکومت کی تشکیل سے قبل یہ اشارہ دیا تھا کہ ان کی ترجیحات میں وزارت نہیں بلکہ ریاستی درجہ کی بحالی ہے۔ تاہم وزارتی کونسل میں توسیع کسی دوسرے مرحلہ پر یقینی ہے کیونکہ ابھی کم سے کم چار جگہیں خالی ہیں۔ البتہ وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے حلف برداری کے بعد یہ اشارہ دیا ہے کہ وزارتی کونسل میںابھی کچھ جگہیں خالی ہیں اور کانگریس کو وزارتی کونسل میں نمائندگی دینے پر ان کے ساتھ مشاورت جاری ہے۔
قطع نظر اس سب گہما گہمی اور جشن کی سی صورتحال کے حکومت کے سامنے بہت سارے چیلنجز ہیں پارٹی نے اقتدارمیں آنے کی صورت میں اپنے چنائو منشور میں جو وعدے کئے ہیں اور جن یقین دہانیوں کا اپنے چنائوی جلسوں میںبھی اعادہ کیا ہے ان پر عملدرآمد پہاڑ جیسا چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ۔ پارٹی کی قیادت اور حکومت ان چیلنجوں سے کیسے اور کس روڈ میپ کو ترتیب دے کر عہدہ براں ہوگی اُس پر گہری توجہ تورہیگی البتہ کچھ اپوزیشن شخصیتوں کی طرف سے حکومت کی تشکیل کے فوراً بعد جس ردعمل کو زبان دی جارہی ہے اُس میں اقتدارمیں آرہی پارٹی کو مبارک باد تو دی جارہی ہے لیکن کچھ ایک اشتعال انگیز جملے بھی زبان پر لائے جارہے ہیں جو اس بات کی واضح علامت ہے کہ یہ لوگ حالیہ الیکشن میں عوام کے ہاتھوں شکست سے خود کو تلخ اور زخمی محسوس کررہے ہیں۔
الیکشن مہم کے دوران پارٹیوں کے درمیان تلخ جملوں، مخالفانہ بیان بازی اور اشتعال انگیزی کے ساتھ ساتھ بہت حد تک کردار کشی بھی دیکھنے میں آتی رہی ہے، لیکن یہ توقع کہ نتائج آنے کے بعد اور حکومت کی تشکیل کے بعد اس مخصوس مخالفانہ ٹکرائو اور منافرت سے عبارت تلخیوں کے باب کو جموںوکشمیر اور اس کے عوام کے وسیع ترمفادات میں بند کردیاجائے گا ان چند افراد کے جن میں سے کچھ ایک کو اپنی پارٹیوں کی جانب سے منڈیٹ کے قابل بھی نہیں سمجھا گیا تھا کے بھی منہ بند ہوجائیں گے اور کوئی ایسی اشتعال انگیز بیان بازی کے مرتکب نہیںہوںگے جو جموں وکشمیرمیں امن اور سکون کو بربادکرنے کا ایک نیا فلڈ گیٹ کھولنے کا موجب بن سکتا ہے۔شاید یہ اُن چند افراد کی اس تلخی کے پیچھے یہ ایک اور وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ انہیں وہ وزارتی کوٹھیاں خالی کرنا پڑی ہیں جن پر وہ پچھلے دس سال سے بغیر کسی اہلیت یا حق کے رہائش پذیر تھے حالانکہ ہائی کورٹ بار بار ان کوٹھیوں کو خالی کرنے کی ہدایت دیتی رہی ہے۔
حکومتیں آتی ہیں اور جاتی ہیں یہ جمہوری عمل کا بُنیادی اصول اور تقاضہ ہے لیکن جو حکومت برسراقتدار آنے کے باوجود عوام سے کئے اپنے وعدوں کا ایفاء نہ کرپائے، یقین دہانیوں کو عملی جامہ نہ پہناسکے، اپنے اعلانات ، بیانات اور چنائو منشور کو اپنے حکومتی طرز اور مزاج کاعکس اور مظہر نہ بناسکے وہ حکومت عوام کا اعتماد کھو دیتی ہے۔ ماضی میں فاروق عبداللہ کی قیادت میں حکومت برسراقتدار تھی تو اس سے کئی ایک غلطیاں اور زیادتیاں سرزد ہوتی رہی،نئے الیکشن کامرحلہ آیا تو بحیثیت اولاد عمر عبداللہ نے ان غلطیوں کا اعتراف کرکے عوام سے معافیاں طلب کیں، عوام نے اعتبار کیا اور منڈیٹ تفویض کیا، لیکن اس عوامی منڈیٹ کی تفویض کے باوجود ان کی وزارتی کونسل میں شامل کانگریس کے ارکان اپنا پارٹی ایجنڈا چلانے اور کولیشن دھرما کا غلط استعمال کرتے ہوئے کئی ایک حساس نوعیت کے معاملات کے حوالہ سے من مانیاں کرتے رہے یہاںتک کہ اندرونی خودمختاری کے سوال پر بھی کانگریس سبوتاژ کرتی رہی۔لیکن اس کے باوجود عمرعبداللہ صورتحال پر عوام سے کئے اپنے وعدوں کو عملی جامہ نہیں پہناسکے اور نہ ہی کانگریس کو من مانیاںکرنے سے روک سکے یہاں تک کہ جموں سے کانگریس کے ایک لیڈر تارا چند جس نے کشمیرکے لئے مخصوص کچھ فنڈس جموں منتقل کئے اُس کو بھی روکنے کی سمت میں عمر کامیاب نہ ہوسکے۔
اب بدلتے حالات، حساس نوعیت کے اشوز اور سب سے بڑھ کر عوام کو جو کچھ حالیہ برسوں میں سہنا پڑا، اس کو دیکھتے ہوئے ایک جٹ ہوکر عوام نے این سی کو پھر سے اعتماد دیا، اس اعتماد کے پیچھے بہت سارے پوشیدہ اورعیاں وجوہات کا رفرما ہیں، توقع کی جارہی ہے کہ این سی بحیثیت پارٹی اور عمرعبداللہ بحیثیت حکومتی سربراہ کے عوام کے اس اعتماد کی لاج رکھنے کی کوشش کریں گے اور جو بھی معاملات درپیش ہیں ٹکرائو کا راستہ اختیار کئے بغیر اور متعصب اور منافرت کو ہوا دینے والے کچھ عنصر کی شرانگیزیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مرکز کے ساتھ اشتراک کرکے ان معاملات کاحل تلاش کریں گے۔

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

’اک آگ کا دریا ہے اور…‘

Next Post

آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں بابراعظم، رضوان اور شاہین کی تنزلی

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
2022 ویمنز ورلڈ کپ فائنل کے لیے میچ آفیشلز کا اعلان

آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں بابراعظم، رضوان اور شاہین کی تنزلی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.