سرینگر/۹اکتوبر
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے چہارشنبہ کے روز کہا کہ نیشنل کانفرنس،کانگریس حکومت اپنی پہلی کابینہ میٹنگ میں جموں کشمیر کی ریاست کا درجہ بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک قرارداد منظور کرے گی۔
عمر نے کہا کہ حکومت کی تشکیل کے بعد مجھے امید ہے کہ کابینہ کے پہلے اجلاس میں کابینہ ایک قرارداد منظور کرے گی جس میں مرکز پر ریاست کا درجہ بحال کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اس کے بعد حکومت کو اس قرارداد کو وزیر اعظم کے پاس لے جانا چاہئے۔
این سی نائب صدر نے امید ظاہر کی کہ جموں و کشمیر میں حکومت دہلی کے برعکس آسانی سے چل سکے گی۔
پی ٹی آئی کے مطابق عمر نے کہا”ہمارے اور دہلی میں فرق ہے۔ دہلی کبھی ایک ریاست نہیں تھی۔ کسی نے بھی دہلی کو ریاست کا درجہ دینے کا وعدہ نہیں کیا تھا۔ جموں و کشمیر 2019 سے پہلے ایک ریاست تھا۔ ہمیں وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور دیگر سینئر وزراءنے ریاست کا درجہ بحال کرنے کا وعدہ کیا ہے جنہوں نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر میں تین قدم اٹھائے جائیں گے …. حد بندی، انتخابات اور پھر ریاست کا درجہ“۔
عمر نے کہا”حد بندی ہو چکی ہے، اب انتخابات بھی ہو چکے ہیں۔ لہٰذا صرف ریاست کا درجہ باقی رہ گیا ہے جسے بحال کیا جانا چاہیے“۔
یہ پوچھے جانے پر کہ جموں کشمیر کی نئی حکومت اور مرکز کے درمیان تال میل کی ضرورت کتنی اہم ہے، نیشنل کانفرنس لیڈر نے کہا کہ نئی دہلی کے ساتھ محاذ آرائی سے کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
ان کاکہنا تھا”سب سے پہلے حکومت بننے دی جائے۔ یہ سوال وزیر اعلیٰ سے پوچھا جانا چاہئے۔ نئی دہلی کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہونے چاہئیں۔ ان (وزیراعلیٰ) کو میرا مشورہ یہ ہوگا کہ ہم مرکز کے ساتھ ٹکراو¿ کرکے کسی بھی مسئلے کو حل نہیں کرسکتے ہیں“۔
این سی نائب صدر نے کہا”ایسا نہیں ہے کہ ہم بی جے پی کی سیاست کو قبول کریں گے، یا یہ کہ بی جے پی ہماری سیاست کو قبول کرے گی۔ ہم بی جے پی کی مخالفت جاری رکھیں گے، لیکن مرکز کی مخالفت کرنا ہماری مجبوری نہیں ہے“۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ مرکز کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا جموں و کشمیر کے فائدے اور جموں و کشمیر کے عوام کے فائدے کے لئے ہوگا۔
این سی نائب صدر نے کہا کہ عوام نے محاذ آرائی کے حق میں ووٹ نہیں دیا ہے۔ جموں و کشمیر کے لوگوں نے ووٹ دیا ہے کیونکہ وہ روزگار چاہتے ہیں، وہ ترقی چاہتے ہیں، وہ ریاست کا درجہ بحال کرنا چاہتے ہیں، وہ بجلی اور دیگر مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں اور یہ حل نئی دہلی کے ساتھ تصادم سے نہیں ہوگا۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ حکومت کی تشکیل کا عمل شروع کرنے کے لئے نیشنل کانفرنس جمعرات کو قانون ساز پارٹی کا اجلاس طلب کرے گی۔
”میں نے نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ سے بات کی ہے اور پارٹی کل قانون ساز پارٹی کا اجلاس بلائے گی۔ اس کے بعد اتحادیوں کی میٹنگ ہوگی جہاں اتحاد کے لیڈر کا انتخاب کیا جائے گا اور پھر ہم حکومت کی تشکیل کا دعویٰ پیش کرنے کے لئے راج بھون جائیں گے“۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا پی ڈی پی مخلوط حکومت کا حصہ بنے گی، نیشنل کانفرنس لیڈر نے کہا کہ فی الحال اس پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔
عمر نے کہا”پی ڈی پی کی جانب سے ہمارے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ہے۔ ہم نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ اس الیکشن کے نتائج کو دیکھتے ہوئے، جو میرے خیال میں ان کے لیے کافی دھچکا ہے، میرے خیال میں اس وقت میں سمجھ سکتا ہوں کہ کچھ اندرونی بات چیت ضرور چل رہی ہے“۔
این سی نائب صدر نے کہا”کسی وقت، اگر بات چیت کا کوئی چینل کھلتا ہے، تو ہم بیٹھ یں گے اور ان سے بات کریں گے۔ لیکن فی الحال یہ ہماری ترجیح نہیں ہے“۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ وہ جہاں عوام کے مینڈیٹ سے عاجز ہیں، وہیں وہ اس ذمہ داری سے بھی بخوبی واقف ہیں جو ان پر عائد ہوتی ہے۔”جموں و کشمیر کے لوگوں کی 2018 سے کوئی شنوائی نہیں ہوئی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم جموں و کشمیر کے عوام کے فائدے کےلئے کام کریں۔ میں اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہوں کہ کشمیر اور جموں کے درمیان شدید تقسیم ہے اور اس لئے آنے والی حکومت پر جموں کے لوگوں کو ملکیت کا احساس دلانے کی بڑی ذمہ داری ہوگی“۔
عمرعبداللہ نے کہا”اگلے چند دنوں میں آنے والی حکومت نیشنل کانفرنس یا اتحاد کی حکومت نہیں ہوگی، یا یہ اتحاد کو ووٹ دینے والوں کی حکومت نہیں ہوگی، یہ جموں و کشمیر کے ہر فرد کی حکومت ہوگی، قطع نظر اس کے کہ انہوں نے کس کو ووٹ دیا، یا انہوں نے بالکل بھی ووٹ دیا، نیشنل کانفرنس کے رہنما نے کہا“۔
این سی نائب صدر نے کہا کہ ان علاقوں میں جہاں سے اس اتحاد میں شامل ایم ایل اے کی تعداد کم ہوگی، حکومت کے اندر ملکیت اور آواز کا احساس دلانے پر خصوصی زور دیا جائے گا۔
ایل جی کے ذریعہ پانچ ایم ایل اے کی نامزدگی کے معاملے پر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے منوج سنہا کو مشورہ دیا کہ وہ ایسا نہ کریں کیونکہ ان پانچ ایم ایل اے کو نامزد کرنے کے بعد بھی بی جے پی حکومت نہیں بنا پائے گی۔
عمرعبداللہ نے کہا”آپ اپوزیشن میں بیٹھنے کے لیے صرف پانچ ایم ایل اے کو نامزد کریں گے اور تنازعہ پیدا ہو جائے گا، کیونکہ اس کے بعد ہمیں سپریم کورٹ جانا پڑے گا اور اس کے خلاف مقدمہ دائر کرنا پڑے گا۔ حالانکہ ہم مرکز کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھنا چاہتے ہیں، لیکن یہ قدم پہلے دن سے ہی تناو¿ پیدا کرے گا“۔
این سی نائب صدر نے کہا کہ پانچ ایم ایل اے کی نامزدگی سے حکومت کی تشکیل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ الیکشن جیتنے والے کچھ آزاد امیدوار پہلے ہی ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں اور وہ ہمارے ساتھ شامل ہوں گے اور ہم اپنی برتری بڑھائیں گے۔ بی جے پی کو ان پانچ ایم ایل اے کو نامزد کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔