سرینگر/(ویب دیسک)
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے رواں سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں کشمیر کا ذکر نہیں کیا۔۲۰۱۹ میں آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد پہلی بار انہوں نے اس معاملے کو نظر انداز کیا ہے۔
اس سال ان کی۳۵ منٹ کی تقریر کا محور غزہ کی انسانی صورتحال تھی، جہاں حماس کے خلاف اسرائیلی حملوں میں۴۰ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
۲۰۱۹ میں بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد اردوغان نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں عالمی رہنماؤں سے اپنے خطاب میں ہر سال کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان مذاکرات کی وکالت کرتے رہے ہیں۔
اس بار اردوان نے غزہ میں فلسطینیوں کی حالت زار کی جانب عالمی برادری کی توجہ مبذول کرائی اور اقوام متحدہ پر شہریوں کی ہلاکتوں کو روکنے میں ناکام رہنے کا الزام عائد کیا۔
ترکیہ کے صدر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کے بارے میں اپنے مشہور تبصرے کو دہرایا۔
اردوان نے امریکہ اور یورپی یونین کے بڑے ممالک سمیت مغربی ممالک پر زور دیا کہ وہ ان ہلاکتوں کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ دنیا میں بچوں اور خواتین کے لیے سب سے بڑا قبرستان بن چکا ہے۔
اردوغان کی جانب سے کشمیر کا حوالہ نہ دینے کو ترکی کے موقف میں واضح تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک مغرب سے باہر اتحاد قائم کرنے کے لیے برکس گروپ کا رکن بننے کی کوشش کر رہا ہے۔
سابق پاکستانی سفارتکار ملیحہ لودھی، جو اقوام متحدہ میں اپنے ملک کی سفیر بھی رہ چکی ہیں، نے ترکیہ کے موقف میں واضح تبدیلی پر تبصرہ کیا۔
لودھی نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں کے برعکس صدر اردوان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں کشمیر کا ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے ۲۰۱۹ سے ۲۰۲۳ تک ہر سال ایساکیا۔
پاکستان کے اتحادی اردوان ماضی میں بارہا مسئلہ کشمیر اٹھاتے رہے ہیں جس کی وجہ سے بھارت اور ترکیہ کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے گزشتہ سال اقوام متحدہ میں جنرل مباحثے کے دوران اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ایک اور پیش رفت جو جنوبی ایشیا میں علاقائی امن، استحکام اور خوشحالی کی راہ ہموار کرے گی وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت اور تعاون کے ذریعے کشمیر میں منصفانہ اور دیرپا امن کا قیام ہے۔
بھارت ماضی میں ان کے بیان کو’مکمل طور پر ناقابل قبول‘قرار دیتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ ترکی کو دوسرے ممالک کی خودمختاری کا احترام کرنا سیکھنا چاہیے اور اپنی پالیسیوں پر زیادہ گہرائی سے غور کرنا چاہیے۔