سرینگر/۲۷ستمبر
ایک دور میں علیحدگی پسندی اور ملی ٹنسی کا گڑھ رہنے والے شمالی کشمیر کے قصبہ سوپور، جو ’اپیل ٹاﺅن‘ کے نام سے بھی مشہور ہے ، میں ان دنوں انتخابی سرگرمیاں بام عروج پر ہیں۔
جموں وکشمیر اسمبلی انتخابات کے تیسرے مرحلے کے لئے یکم اکتوبر کو کشمیر کی جن 16 سیٹوں کی پولنگ ہو رہی ہے ان میں سوپور حلقہ انتخاب بھی شامل ہے ۔
سیب باغات سے بھر پور یہ خوشحال قصبہ جہاں ملی ٹنسی کا مرکز رہا ہے وہیں حزب المجاہدین اور تحریک جہاد اسلامی جیسی ملی ٹنٹ تنظیموں کے اعلیٰ کمانڈروں کا تعلق بھی اسی خطے سے رہا ہے ۔
سوپور حلقہ انتخاب کی ایک منفرد سیاسی تاریخ ہے یہی وہ سیٹ ہے جہاں سے سخت گیر حریت لیڈر مرحوم سید علی گیلانی تین بار سال1972 ،1977 اور سال1987 میں رکن اسمبلی بن گئے ۔تاہم سال 1989 میں ملی ٹنسی شروع ہونے کے ساتھ ہی وہ مین اسٹریم سیاست سے دستبردار ہوگئے ۔
جموں وکشمیر کے رواں اسمبلی انتخابات کے دوران سوپور حلقے میں ایک بار پھر سیاسی سرگرمیاں نقطہ عروج پر ہیں اور سیٹ پر کم و بیش بیس امید وار قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ان امید واروں میں سے محمد لطیف وانی ایک نمایاں امید وار ہیں جن کا خاندانی سلسلہ کشمیر کی علیحدگی پسند سیاست کے بڑے لیڈر صوفی اکبر سے ملتا ہے ۔
صوفی اکبر جن کا شمار شیخ محمد عبداللہ کے معتمد ساتھیوں میں کیا جاتا تھا، نے سال1975 میں دلی میں ہونے والے اندرا ، شیخ معاہدے کے بعد بغاوت کی اور سال 1977 میں انہوں نے محاذ آزادی فرنٹ کی بیناد ڈالی اور سال1987 تک اپنی زندگی کی آخری سانسیں لینے تک علیحدگی پسند کاز کے ساتھ وابستہ رہے ۔
محمد لطیف نے اپنی سیاسی بنیادوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا”جو کردار صوفی اکبر (صاحب) نے جموں وکشمیر کے سیاسی میدان میں انجام دیا ہے وہ ہر کسی کے سامنے روشن ہے “۔انہوں نے کہا”میں بچپن سے ہی سوپور کے سیاسی منظر نامے پر سرگرم تھا، میں ہمیشہ سوپور کو چندی گڑھ جیسے ترقی یافتہ علاقے کی طرح دیکھنے کا خواب دیکھتا تھا“۔
ان کا کہنا تھا”لیکن جتنے بھی رکن اسمبلی آئے ان میں سے کوئی بھی میرے اس خواب کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب نہیں ہوسکا جس کے نتیجے میں سوپور 1947 کے دور کی تعمیر و ترقی کے لحاظ سے پسماندگی میں ہی پھنس گیا“۔
محمد لطیف ‘جو ایک مذہبی و تعلیمی باڈی انجمن معین الاسلام کے صدر ہیں‘ نے اپنی گھر گھر انتخابی مہم کے دوران اشہ پیر علاقے ،جہاں ایک زمانے میں جانے کی کوئی ہمت نہیں کرتا تھا، کا بھی دورہ کیا اور وہاں لوگوں کو ان کے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کی۔انہوں نے وہاں لوگوں سے کہا”ہم سالہاسال سے تکلیفوں سے دوچار ہیں لیکن یہ اب لوگوں کے ہاتھوں میں ہے کہ ایک اہل لیڈر کو چن کر اسمبلی میں بھیج دیں‘۔
سوپور اسمبلی حلقے پر انتہائی دلچسپ مقابلے کی امید ہے اور اس نشست پر نیشنل کانفرنس اور کانگریس، جو اتحادی شراکت دار ہیں، ایک ’دوستانہ مقابلہ‘میں حصہ لے رہے ہیں۔اس حلقے پر نیشنل کانفرنس کے ارشاد کار اور کانگریس کے سابق رکن اسمبلی عبد الرشید ڈار مقابلے میں ہیں۔
ارشاد کار کا کہنا ہے”دوستانہ مقابلے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ہاتھوں پر ہاتھ دھر کر بیٹھیں،بہر حال ایک مقابلہ ایک مقابلہ ہی ہوتا ہے “۔
سال 2014 کے اسمبلی انتخابات میں اس سیٹ ہر کانگریس کے رشید ڈار نے کامیابی کا جھنڈا گاڑ کر نیشنل کانفرنس کے امید وار کو ہر دیا تھا۔
تاہم آزاد امید وار لطیف وانی کا کہنا ہے کہ اب کی بار اس حلقے پر بدلاﺅ ناگزیر ہے ۔انہوں نے کہا”مجھے یقین محکم ہے کہ سوپور کے لوگ یہ بات سمجھ گئے ہیں کہ ماضی میں یہاں روایتی جماعتوں نے تعمیر و ترقی اور سیاسی محاذ پر کیا کیا اب وقت آگیا ہے کہ ان کے ماضی کے کارناموں کا بدلہ لیا جائے کیونکہ ان جماعتوں نے لوگوں کے منڈیٹ کو ذاتی مفادات پر قربان کیا“۔
ان کا کہنا ہے”اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مجھے کسی سیاسی جماعت کی پشت پناہی حاصل نہیں ہے لیکن میں یہ بات وثوق سے کہتا ہوں کہ مجھے اپنے لوگوں کی حمایت حاصل ہے “۔
حالیہ لوک سبھا الیکشن کے دوران سوپور میں 44 فیصد ووٹر ٹرن آﺅٹ ریکارڈ کیا گیا جو ماضی کی انتہائی مایوس کن ووٹنگ شرح کے مقابلے انتہائی حوصلہ افزا ہے ۔
سوپور نشست کا ایک پیچیدہ پہلو یہ ہے کہ اس حلقے میں کالعدم جماعت اسلامی کی مضبوط بنیاد ہے اور جماعت سے حال ہی میں سابق حریت لیڈر حاجی منظور احمد کلو،جو آزاد امید وار کی حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں، کو حمایت دینے کا اعلان کیا ہے ،تاہم جماعت اس معاملے پر منقسم ہے ۔
سوپور کے نور باغ علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک جماعت حامی کا کہنا ہے”چہ جائیکہ جماعت نے ایک آزاد امید وار کی حمایت کا اعلان کیا ہے لیکن میں اس کو کبھی ووٹ نہیں دوں گا“۔تاہم سوپور حلقے کے انتخابات کے نتائج کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ یکم اکتوبر کو جماعت اسلامی کے حامی کس طرح اپنے حق رائے دہی کا استعمال کر سکتے ہیں۔