جموں//
نیشنل کانفرنس کے سربراہ فاروق عبداللہ نے جمعرات کو وزیر اعظم نریندر مودی پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ۱۹۸۹ میں روبیہ سعید کے بدلے میں دہشت گردوں کی رہائی اور ۱۹۹۹ میں افغانستان میں انڈین ایئر لائن کے طیارے کے ہائی جیکروں کی رہائی خطے میں دہشت گردی کو فروغ دینے کیلئے ذمہ دار ہے۔
فارو ق عبداللہ نے سرینگر میں ایک انتخابی ریلی میں وزیر اعظم مودی کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے نیشنل کانفرنس ( این سی ) ، کانگریس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) پر جموں و کشمیر کی’تباہی‘ کا الزام لگایا تھا۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی نے کہا کہ لوگوں کو شکر گزار ہونا چاہئے کہ تقسیم ہند کے وقت ۱۹۴۷ میں نیشنل کانفرنس موجود تھی ورنہ مسلم اکثریتی ریاست پاکستان کا حصہ بن جاتی۔
اودھم پور ایسٹ میں پارٹی امیدوار سنیل ورما کی حمایت میں ایک انتخابی ریلی کے موقع پر نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے صدر نے بی جے پی زیرقیادت حکومت کے ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ منصوبے کی بھی مخالفت کی اور پارٹی پر ملک میں نفرت پھیلانے کا الزام لگایا۔
سری نگر میں وزیر اعظم کے اس بیان کے بارے میں پوچھے جانے پر کہ تین خاندانوں نیشنل کانفرنس، کانگریس اور پی ڈی پی نے جموں و کشمیر کو تباہ کرنے کا الزام لگایا ہے، فاروق عبداللہ نے پوچھا کہ دسمبر ۱۹۹۹ میں انڈین ایئرلائنز کے ہائی جیک کیے گئے ۸۱۴ طیارے اور اس وقت کے وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کے اغوا کے بدلے میں کس نے سخت گیر دہشت گردوں کو رہا کیا تھا۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا’’جب میں نے ان سے کہا کہ ایسا نہ کریں (دونوں صورتوں میں دہشت گردوں کو رہا کریں)تو کس نے دباؤ ڈالا؟ جن دہشت گردوں کو رہا کیا گیا تھا وہیں آج پاکستان سے جموں و کشمیر میں دہشت گردی چلا رہے ہیں۔ میں نے اس وقت کہا تھا کہ وہ ہماری تباہی کے ذمہ دار ہوں گے لیکن کسی نے نہیں سنا اور اب وہ ہم پر کانگریس اور نیشنل کانفرنس کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں‘‘۔
فاروق عبداللہ نے کہا کہ لوگوں کو شکر گزار ہونا چاہئے کہ تقسیم ہند کے وقت جموں و کشمیر میں نیشنل کانفرنس موجود تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم وہاں نہ ہوتے تو جموں و کشمیر پاکستان کا حصہ بن جاتا کیونکہ یہ ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی۔ اس کے بجائے ہم نے گاندھی نہرو کے راستے کو ترجیح دی تاکہ وہ ہندوستان کا حصہ بن سکیں جہاں ہندو، مسلمان، سکھ یا بدھ مت کے تمام شہری برابر ہیں۔
این سی صدر نے کہا کہ وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ دہشت گردی ختم ہوگئی ہے لیکن زمینی صورتحال سے پتہ چلتا ہے کہ پرامن جموں خطے میں اس میں اضافہ ہوا ہے۔
ڈاکٹر فاروق نے کہا’’انہوں نے نفرت کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور ہمیں اسے بند کرنا ہوگا۔ (کانگریس لیڈر) راہل گاندھی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں نفرت کی دکان بند کرنی ہے اور محبت کی دکانیں کھولنی ہیں۔ میں کہہ رہا ہوں کہ ہمیں نفرت کی گاڑی کو ڈبونا ہے اور پورے ملک میں محبت کی گاڑی کو جھنڈی دکھانی ہے‘‘۔
نیشنل کانفرنس کے رہنما نے جموں و کشمیر میں آئندہ اسمبلی انتخابات جیتنے اور اگلی حکومت تشکیل دینے کے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہندوستان کا تاج ہیں اور یہاں سے (نفرت کے خلاف) نئی صبح نکلے گی۔
بی جے پی زیرقیادت حکومت کے ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کے منصوبے پر ان کے رد عمل کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ یہ ملک میں نہیں چلے گا۔انہوں نے کہا کہ جب پارلیمنٹ میں اس (ایک ملک، ایک الیکشن) پر بحث ہوگی تو آپ سنیں گے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ اگر ملک کے کسی حصے میں کوئی حکومت گرتی ہے تو کیا وہ اگلے انتخابات تک صدر راج کے تحت آئے گی۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا’’یہ کیسے کام کرے گا؟ وہ ہمیں پارلیمنٹ میں سمجھائیں کہ اس سے ان کا کیا مطلب ہے۔ وہ وفاقی ڈھانچے کو کیسے برقرار رکھیں گے‘‘؟
جموں و کشمیر میں اگلی حکومت بنانے کے بی جے پی کے دعوے کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا’’وہ ہوا میں قلعے بنا رہے ہیں‘‘۔سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ انتخابات میں کون کامیابی حاصل کرتا ہے۔ کیا انہوں نے جموں کے لوگوں کا دل جیت لیا ہے؟ انہوں نے پوچھا کہ انہوں نے جموں کے لئے کیا کیا ہے۔
داکٹر فاروق نے کہا کہ عوام اپنی زمینیں کھو رہے ہیں اور مہنگائی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں جبکہ باہر سے آنے والے سول اور پولیس افسران سات دہائیوں سے ریاست چلانے والے مقامی افسران کو نظر انداز کرتے ہوئے اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہیں۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کے مبینہ بیان کے بارے میں پوچھے جانے پر کہ ان کا ملک اور جموں و کشمیر میں نیشنل کانفرنس،کانگریس اتحاد آرٹیکل ۳۷۰ کی بحالی پر ایک پیج پر ہیں، انہوں نے کہا’’مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان کیا کہہ رہا ہے کیونکہ میں پاکستان سے نہیں ہوں۔ میں ہندوستان کا شہری ہوں‘‘۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اگر ان کی پارٹی حکومت بناتی ہے تو وہ ’دربار موو‘کی روایت کو بحال کریں گے جس کے تحت حکومت سرینگر اور جموں میں باالترتیب موسم گرما اور سردیوں میں چھ ماہ کام کرتی تھی۔ ایل جی انتظامیہ نے جون۲۰۲۱ میں اس عمل کو روک دیا تھا۔
فاروق عبداللہ نے کہا کہ۱۴۹ سال پرانا یہ عمل ڈوگرہ حکمرانوں نے شروع کیا تھا اور یہ دونوں خطوں کے درمیان ایک رشتہ بن گیا ہے جسے انہوں نے توڑ دیا ہے۔ (ایجنسیاں)