نئی دہلی//
مرکزی کابینہ نے ملک میں لوک سبھا، اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں کے ایک ساتھ انتخابات کرانے کے اہم ہدف ’ون نیشن ، ون الیکشن‘کو نافذ کرنے کے سلسلے میں ایک اہم فیصلہ کرتے ہوئے بدھ کو رام ناتھ کووند کمیٹی کی سفارشات کو منظوری دیدی۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں منعقدہ کابینہ کی میٹنگ میں لکے گئے فیصلوں کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے اطلاعات و نشریات کے وزیر اشونی وشنو نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ’’کابینہ نے آج ایک اہم فیصلہ کیا ہے اور ون نیشن ون الیکشن کے حوالے سے تشکیل کردہ ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کی سفارشات منظور کر لی گئی ہیں‘‘۔
ویشنو نے کہا کہ حکومت اس نظام کو دو مرحلوں میں نافذ کرنے پر غور کر رہی ہے ۔ پہلے مرحلے میں لوک سبھا اور قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی تجویز ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں ان کے ساتھ بلدیاتی اداروں کے انتخابات بھی کرائے جائیں گے ۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ ایک قوم، ایک الیکشن کی تجویز کو ملک بھر میں بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی ہے ۔ اس سے قبل پارلیمنٹ کی کچھ کمیٹیاں اور سماجی تنظیمیں بھی اس تجویز کی وکالت کر چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے معاشی ترقی کو تقویت ملے گی۔
قابل ذکر ہے کہ کووند کمیٹی نے اپنی سفارش میں کہا ہے کہ متواتر انتخابات کی وجہ سے ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کا نفاذ حکومتوں کے منصوبہ بندی کے فیصلوں کو متاثر کرتا ہے اور ترقیاتی کاموں کی رفتار کو روکتا ہے ۔
کووند کمیٹی کو دیے گئے میمورنڈم میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی ) اور اس کی تمام اتحادی جماعتوں نے واضح طور پر اس تصور کی حمایت کی تھی، جب کہ کانگریس، عام آدمی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور ترنمول کانگریس جیسی جماعتوں نے اس پر اپنے مختلف اعتراضات درج کرائے تھے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو ایک ملک ، ایک الیکشن کے نظام کے نفاذ کے لیے آئین میں ترمیم کا بل لانا ہوگا۔لیکن اس پر عمل درآمد کے لیے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت درکار ہوگی کیونکہ اس میں آئین میں ترمیم شامل ہے۔ اسے نافذ کرنے کے لئے کم از کم چھ ترامیم کی ضرورت ہوگی۔ اس کے بعد تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے اس کی توثیق کرنی ہوگی۔
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں این ڈی اے کو سادہ اکثریت حاصل ہے لیکن دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنا ایک چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔ راجیہ سبھا کی۲۴۵ سیٹوں میں سے این ڈی اے کے پاس۱۱۲؍ اور اپوزیشن پارٹیوں کے پاس۸۵ سیٹیں ہیں۔ دو تہائی اکثریت کے لیے حکومت کو کم از کم ۱۶۴ ووٹوں کی ضرورت ہے۔
یہاں تک کہ لوک سبھا میں بھی این ڈی اے کے پاس۵۴۵ میں سے۲۹۲سیٹیں ہیں۔ دو تہائی اکثریت کا نشان۳۶۴ ہے۔ لیکن صورتحال متحرک ہوسکتی ہے ، کیونکہ اکثریت صرف موجود اور ووٹنگ کے لحاظ سے شمار کی جائے گی۔جن پارٹیوں نے روایتی طور پر ایشو بیسڈ سپورٹ دی ہے ان کے بھی مٹھی بھر ایم پیز ہیں، لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کس طرف ہوں گی۔ اس سے پہلے بی جے ڈی اور اے آئی اے ڈی ایم کے نے ان کی حمایت کی تھی۔
اس دوران حزب اختلاف کی جماعتوں نے چہارشنبہ کے روز ’ایک ملک، ایک الیکشن‘ کی تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ناقابل عمل اور حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کا ’سستا اسٹنٹ‘ قرار دیا۔
کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے کہا کہ ’ایک ملک، ایک الیکشن‘ عملی نہیں ہے اور الزام لگایا کہ بی جے پی انتخابات کے قریب آنے پر حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے اس طرح کی باتیں کرتی ہے۔
کھرگے نے کہا’’یہ عملی نہیں ہے، یہ کام نہیں کرے گا۔ جب انتخابات آتے ہیں اور انہیں (بی جے پی کو) اٹھانے کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ملتا ہے تو وہ اصل مسائل سے توجہ ہٹاتے ہیں‘‘۔
ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے رہنما ڈیرک اوبرائن نے اسے بی جے پی کا ’سستا اسٹنٹ‘قرار دیا اور سوال کیا کہ اگر حکومت ایک ساتھ انتخابات کروانا چاہتی ہے تو ہریانہ اور جموں و کشمیر میں مہاراشٹر انتخابات کا اعلان کیوں نہیں کیا گیا۔
ان کاکہنا تھا’’ایک ملک، ایک الیکشن ‘جمہوریت مخالف بی جے پی کا ایک اور سستا اسٹنٹ ہے۔ ہریانہ اور جموں و کشمیر کے انتخابات کے ساتھ مہاراشٹر کے انتخابات کا اعلان کیوں نہیں کیا گیا؟‘‘