سرینگر//
جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے والے ۹۰۸؍امیدواروں میں سے ۴۰ فیصد سے زیادہ آزاد امیدوار ہیں، جس سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ان میں سے ایک بڑی تعداد کو بی جے پی نے ووٹ تقسیم کرنے کیلئے حمایت کی ہے۔
۲۰۱۹ میں آرٹیکل ۳۷۰کی منسوخی اور اس کی دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تنظیم نو کے بعد جموں و کشمیر میں یہ پہلے اسمبلی انتخابات ہیں۔
۲۰۲۲ میں حد بندی کے عمل کے بعد اسمبلی نشستوں کی تعداد بھی پہلے کے۸۷ سے بڑھ کر ۹۰ ہوگئی ہے … وادی کشمیر میں ۴۷؍ اور جموں میں ۴۳۔
آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد میدان میں آنے کی وجہ سے نیشنل کانفرنس، کانگریس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے الزام لگایا ہے کہ انہیں’دہلی‘ کی حمایت حاصل ہے۔
تین مرحلوں میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کل۳۶۵ نے آزاد امیدواروں کے طور پر اپنے کاغذات نامزدگی داخل کیے ہیں۔
جموں و کشمیر میں انتخابات لڑنے والے آزاد امیدواروں کی یہ دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔ سال ۲۰۰۰۸ کے اسمبلی انتخابات میں، جو امرناتھ اراضی تنازعہ کے فورا بعد ہوئے تھے، جس میں درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے‘۴۶۸؍امیدواروں نے آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑا تھا۔
اس بار امیدواروں کی کل تعداد بھی اب تک کی دوسری سب سے زیادہ ہے۔۲۰۰۸کے انتخابات میں۱۳۵۳؍امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔
سال۲۰۱۴ میں پچھلی بار سابق ریاست میں اسمبلی انتخابات ہوئے تھے جس میں۸۳۱؍امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔ ان میں سے ۲۷۴ نے آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑا تھا۔
اس بار جموں ڈویڑن کی۴۳ سیٹوں کیلئے ۳۶۷؍ امیدوار میدان میں ہیں، جہاں بی جے پی کی مضبوط بنیاد ہے، جبکہ وادی کی۴۷سیٹوں کیلئے۵۴۱؍ امیدوار میدان میں ہیں۔
کشمیر کے ۴۷؍اسمبلی حلقوں میں سے ہر ایک کیلئے اوسطا ًپانچ آزاد امیدوار ہیں۔ جموں ڈویڑن میں یہ تعداد گھٹ کر۹۳ء۲ فی حلقہ رہ گئی ہے۔
سوپور اسمبلی حلقہ، جو کبھی عسکریت پسندی کا گڑھ تھا اور کشمیر میں انتخابی بائیکاٹ مہم کا مرکز تھا، میں آزاد اور کل امیدواروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔۲۲؍امیدوار میدان میں ہیں جن میں سے ۱۴آزاد امیدوار ہیں۔سوپور سے آزاد امیدواروں میں پارلیمنٹ حملے کے مجرم افضل گورو کے بھائی اعجاز گرو بھی شامل ہیں۔
بانڈی پورہ ضلع کے سوناواری حلقہ میں۲۰ امیدوار میدان میں ہیں، جن میں۱۱؍آزاد امیدوار بھی شامل ہیں۔ اس علاقے میں کالعدم جماعت اسلامی کی مضبوط موجودگی ہے۔
اس بھرمار کے درمیان چار حلقے ایسے ہیں جہاں آزاد امیدواروں کی تعداد صفر ہے۔ ان میں بدھل، کنگن، رمنگر اور سری گوفوارہ،بجبہاڑہ شامل ہیں۔
ضلع اننت ناگ کی سری گفوارہ بجبہاڑہ سیٹ پر تین امیدوار میدان میں ہیں جن میں سے ایک پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی سربراہ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی ہیں۔
ڈوڈہ ویسٹ، نوشہرہ اور رام گڑھ میں ایک ایک آزاد امیدوار ہے۔ بی جے پی کے جموں و کشمیر کے صدر رویندر راینا نوشہرہ سے امیدوار ہیں جو انتخابات جیتنے کی صورت میں وزیر اعلیٰ کے عہدے کیلئے سب سے آگے ہیں۔
انتخابی میدان میں آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد کے بارے میں محبوبہ مفتی نے کہا کہ انہیں دہلی نے ووٹ تقسیم کرنے کے لئے میدان میں اتارا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک ساتھ رہنا ہوگا تاکہ دہلی کی جانب سے بڑی تعداد میں آزاد امیدوار ووٹوں کو تقسیم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
گاندربل اور بڈگام حلقوں سے الیکشن لڑ رہے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ دہلی ان کی آواز دبانے کے لئے ان کے خلاف بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں کو میدان میں اتار رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ دہلی جموں و کشمیر میں کسی بھی سیاست داں کو خاموش کرانے کی کوشش نہیں کر رہا ہے، خاص طور پر کشمیر میں، جتنا وہ عمر عبداللہ کے ساتھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
گاندربل حلقہ میں۱۵؍امیدوار میدان میں ہیں۔ ان میں سے سات امیدوار جن میں جیل میں بند علیحدگی پسند رہنما سرجان احمد واگے عرف برکاتی بھی شامل ہیں، جن کا تعلق جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع سے ہے، آزاد امیدوار ہیں۔
کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے بھی آزاد امیدواروں کی غیر معمولی طور پر بڑی تعداد میں میدان میں آنے کا معاملہ اٹھایا۔انہوں نے کہا کہ کانگریس اور نیشنل کانفرنس مل کر الیکشن لڑ رہے ہیں جس سے بی جے پی پریشان ہے۔
کھڑگے نے گزشتہ ہفتے کشمیر کے اپنے دورے کے دوران پوچھا ’’ اب وہ اتحاد توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کانگریس اور نیشنل کانفرنس مل کر الیکشن لڑ رہے ہیں جس سے بی جے پی پریشان ہے۔ اب وہ اتحاد توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہاں تک کہ وہ ہمارے امیدواروں کو شکست دینے کی کوشش میں نجی کھلاڑیوں کو بھی میدان میں اتار رہے ہیں اور بالواسطہ طور پر آزاد امیدواروں کے طور پر ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ بصورت دیگر، وہ (آزاد امیدوار) پیسے کہاں سے لاتے ہیں؟ ان کے پیچھے کون ہے؟‘‘
جموں و کشمیر کی۹۰رکنی اسمبلی کیلئے تین مرحلوں میں انتخابات۱۸ ستمبر‘۲۵ ستمبر اور یکم اکتوبر کو ہوں گے۔ نتائج کا اعلان ۸؍اکتوبر کو کیا جائے گا۔ (ایجنسیاں)