پولیس کے مطابق اس سال اب تک کشمیرمیں۱۶؍ عام شہری ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ان ہلاکتوں کو لے کر حسب معمول کشمیرکی سول سوسائٹی فکر مندی اور تشویش میںمبتلا ہے۔ بحیثیت مجموعی لوگوں کی اکثریت ان ٹارگٹ کلنگوں کو کسی بھی فکر، کسی بھی عقیدے ،کسی بھی اخلاقی، معاشرتی یا سیاسی اہمیت کے حامل نظر یے سے نہ دیکھاجارہاہے اور نہ ہی پسندیدہ عمل سمجھا جارہاہے۔ بلکہ اس عمل کے انتہائی قبیح نتائج کے آثار مطلع پر صاف اور واضح طور سے منڈلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
پولیس اور ایڈمنسٹریشن مسلسل دعویٰ کررہی ہے کہ ان دلخراش واقعات میں ملوث، جو کوئی بھی ہے، کو جنگجو مخالف آپریشنز میںہلاک کیاجارہاہے یا ان کا صفایا کرنے کیلئے آپریشن جاری ہیں۔ ان مخصوص ہلاکتوں کے پیچھے عزائم اور اہداف کیا ہیں اس بارے میں مختلف خیالات اور آراء کو پیش کیاجارہاہے جو بادی النظرمیںیا تو قیاس آرائیوں پر مبنی ہے یا مفروضوں سے عبارت ہے۔ کوئی اس نوعیت کی ہلاکتوں کو ۱۹۹۰ء کی دہائی کے حالات واقعات کا مماثل قرار دے رہاہے، کوئی وادی سے ان ہلاکتوں کی مخالفت میںآوازوں کوخوف ودہشت مسلط کرکے خاموش کرنے کی منصوبہ بندی کے طور پیش کررہاہے، کوئی نوجوانوں میںغم وغصہ اور برہمی کا ردعمل تو کوئی کچھ اور… لیکن جو کچھ بھی ان ٹارگٹ ہلاکتوں کے پیچھے عزائم اور مقاصد یا اہداف ہوں یہ بات واضح ہے کہ اس قسم کے واقعات وادی کے عوام کے نہ صرف وسیع ترمفادات اور ان کے بقائے باہم جذبے اور مفاہمت پر غیر متزلزل یقین اور اعتماد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا کر ختم کرنے کی ایک منظم سعی ہے بلکہ سرزمین کشمیر کو آنے والے وقتوں اور نسلوں تک پہنچانے کیلئے لہو رنگ بنائے رکھنے کی سمت کی طرف بھی اشارہ دے رہا ہے۔
گذشتہ سال کے دوران کشمیرمیں ہر ماہ اوسطاً تین عام شہری ہلاک ہوتے رہے جو اوسط اس سال کے دوران اب تک برقرار ہے۔ البتہ اب کی بار ٹارگٹ کچھ ہٹ کر ہے۔ اب کی بار نشانہ کشمیرمیں پنڈت برادری سے وابستہ ملازمین، غیر مقامی مزدوروں کے ساتھ ساتھ سویلین میں ملبوس پولیس اہلکاروں کو بنایاجاتا رہا۔ بے شک ان واقعات سے پنڈت برادری فکروتشویش میں مبتلا ہورہی ہے جس کا اظہار وہ سڑکوں پر آکر اب اپنے کچھ مطالبات کی صورت میں کررہے ہیں ۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ان کی ہلاکتوں پر روک لگائی جائے، مکمل سکیورٹی فراہم کی جائے یا اگر یہ ممکن نہیں تو ان کی تعیناتی کو جموں منتقل کردیاجائے،حکومت ان کے ان مطالبات کا جائزہ لے رہی ہے اور توقع یہی ہے کہ آئندہ چند دنوں میں اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کیاجائے گا۔
لیکن سکیورٹی بندوبست اپنی جگہ، جنگجو مخالف آپریشنز بھی اپنی جگہ اور مختلف نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کی بیان بازی بھی اپنی جگہ، سوال یہ ہے کہ کیا بیان بازی میں اس کا کوئی حل مضمر ہے، کیا مذمتی بیانات اجرا ء کرنے اور حملوں کو بزدلانہ وغیرہ ایسے الفاظات کا لبادہ پہنانے سے حملہ آور اپنے عزائم اور منصوبوں کی تکمیل آوری سے پیچھے ہٹ جائیں گے، یہ ممکن نہیں بلکہ محض خام خیال ہے اور یہ خام خیالی اب کئی سالوں سے محیط ہے۔
قومی دھارے سے منسلک کشمیرنشین جتنے بھی سیاستدان اور سیاسی جماعتیں ہیں وہ اس بات کو اپنے اپنے گرہ میں باند ھ لیں کہ ان کے مذمتی بیانات، جو تمام تر Adjectivesسے مزین ہوتے ہیں، کے بل پر ہلاکتوں کا یہ سیلاب رکنے والا نہیں ہے اور نہ ہی ان واقعات میںملوثین ان کی کسی مذمت سے دلبرداشتہ ہو سکتے ہیں۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ یہ سارے سیاستدان یہ بیانات اپنے سکیورٹی حصاروں کے اندر محفوظ محل خانوں اور سیاسی ایوانوں سے اجراء کررہے ہیں جبکہ زمینی سطح پر ان کا انفرادی سطح پر اور نہ ہی اجتماعی یا پارٹی سطح پر کوئی منظم کردارنظرآرہاہے۔ان کا مطمع نظر حصول اقتدار ہے تاکہ وہ اپنی عیاشیوں کیلئے نئی اننگز کا آغاز کرسکیں۔
یہ بات اب ایک قصہ پارینہ بن چکی ہے کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال ،سیاسی ومعاشرتی ومعاشی تباہی وبربادی کی سمت میں ان سیاستدانوں نے اپنے اپنے وقت پر ’ملازمانہ‘ رول اداکرکے جو اہم کردار اداکیا ہے وہ کسی کی نظروںسے پوشیدہ نہیں۔کسی نے اپنے کیڈر کے جتھوں کو سرحد پار تربیت کیلئے حوصلہ افزائی کی، کسی نے ’حوالہ ‘ کا کردارادا کرکے معاونتی رول نبھایا، کسی نے سرندڑ دہشت گردوں کو پناہ دے کر اپنے مخصوص عزائم کی تکمیل کیلئے اعلیٰ سیاسی اور قانون سازیہ کے ایوانوں تک پہنچایا، تو کچھ نے خوشنما اور جذباتی نعرے بلندکرکے عوام کے احساسات اور جذبات کا ناجائز استحصال کیا۔ فراڈ الیکشنوں میں معاونتی کردار اداکرکے لوگوں کو ان کے جمہوری اور آئینی حقوق سے محروم کیا، ان سبھی سیاہ کاریوں اور سیاسی لن ترانیوںمیںدہلی میں بیٹھی کانگریس اور اس کی قیادت کا بھی کچھ کم رول نہیں تھا۔
ماضی کے حوالہ سے جو کچھ بھی ذہن میںہے آج کی تارخ میں وہ کسی عذاب سے کم نہیں ۔ جس قوم کی سیاسی ودوسری قیادت منافق ہو، ابن الوقت ہو، ہوس اقتدار اور حصول اقتدار کی دوڑ میں ضمیر فروشی تک گرجانے کیلئے ہمہ وقت تیار ہو اور قیادت کے دعویدار اپنے عوام کی بقاء اور سلامتی ، مادی، معاشرتی ،اخلاقی ، تہذیبی حقوق اور مفادات کا تحفظ کو ثانوی درجہ بھی نہ دینے کیلئے تیار ہو اُس قوم کیلئے ایسی کوئی بھی قیادت کا دعویدار ایک ناکارہ اور متروک پرزہ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔