جموں//
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں شیڈول کاسٹ( ایس سی) ووٹروں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کیونکہ درج فہرست ذات (ایس سی) رائے دہندگان کی سب سے زیادہ فیصد والی مخصوص نشستیں جموں و کشمیر میں اگلی حکومت کی تشکیل میں مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں’اہم عنصر‘ ادا کریں گی۔
جموں و کشمیر میں تین مرحلوں میں ۱۸ستمبر‘۲۵ ستمبر اور یکم اکتوبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے اور نتائج کا اعلان۸؍ اکتوبر کو کیا جائے گا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں سات اسمبلی حلقے درج فہرست ذات (ایس سی) کے امیدواروں کیلئے اور نو درج فہرست قبائل (ایس ٹی) امیدواروں کیلئے مخصوص ہیں۔
سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ سات مخصوص نشستوں پر رائے دہندگان مختلف سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرنے والے ایس سی امیدواروں کے لئے ’کلیدی عنصر‘ کا کردار ادا کریں گے۔ جموں، سانبا، کٹھوعہ اور ادھم پور اضلاع کی سات مخصوص نشستوں پر درج فہرست ذات کے ووٹروں کی تعداد ۳۲ سے۴۲ فیصد ہے۔
ماہرین نے کہا کہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی جانب سے جمعہ کو جموں میں جاری بی جے پی کے منشور میں سرکاری ملازمتوں میں درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کیلئے پروموشن میں ریزرویشن پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
ماہرین نے بتایا کہ جموں ضلع کے مارہ، بشنا، سچیت گڑھ اور اکھنور، اودھم پور ضلع کے رام نگر، کٹھوعہ ضلع کے کٹھوعہ اور سانبہ ضلع کے رام گڑھ جیسے حلقے ایس سی امیدواروں کیلئے محفوظ ہیں اور ان تمام حلقوں میں برادری کے رائے دہندگان کا تناسب صحت مند ہے۔
انہوں نے کہا’’پہلے یہ سبھی سیٹیں کھلی تھیں، لیکن حد بندی کے بعد انہیں ریزرو کر دیا گیا اور اس نے بی جے پی اور کانگریس کے اہم رہنماؤں کو جیت دلائی۔ چونکہ یہ نشستیں محفوظ ہیں اس لئے اب سیاسی جماعتیں اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے لئے جیتنے کے قابل موزوں امیدواروں کو میدان میں اتارنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ماہرین نے کہا کہ کچھ سیاسی جماعتیں نشست جیتنے کیلئے حلقوں سے باہر سے بھی امیدوار کھڑا کر رہی ہیں لیکن ایسی جماعتوں کو آبائی حلقوں سے اپنے پسندیدہ رہنماؤں کو نظر انداز کرنے پر عوام کے غصے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار (۲۰۱۱ کی مردم شماری) کے مطابق، مارہ حلقہ میں سب سے زیادہ ۵۵ء۴۲ فیصد ایس سی ووٹرزہیں جن کی آبادی۴۵ہزار۶۵۶ہے جبکہ کل رائے دہندگان ایک لاکھ۷ہزار۲۸۸ ہیں۔
اسی طرح بشنہ میں کل رائے دہندگان ایک لاکھ۴۱ہزار۲۰۵ ہیں جن میں سے۵۹ہزار۲۴۱ایس سی کمیونٹی (۹۵ء۴۱ فیصد)، رام نگر میں۴۳۰۲۵(۷۳ء۳۶ فیصد) ایس سی کمیونٹی کے ہیں جبکہ کل ایک لاکھ۱۷ہزار۱۳۲ ووٹرز ہیں، سچیت گڑھ میں کل ایک لاکھ۲۸ہزار۳۶۸ ووٹروں میں سے۴۷۱۲۷(۷۱ء۳۶ فیصد) ایس سی کمیونٹی سے ہیں، اکھنور میں کل ایک لاکھ۲۷ہزار۳۸۵ووٹروں میں سے۳۹۸۶۰ (۲۹ء۳۱ فیصد) ایس سی کمیونٹی سے ہیں۔
کٹھوعہ میں کل ایک لاکھ۳۸ہزار۳۸۲ رائے دہندگان میں سے۴۳۲۸۰(۲۸ء۳۱ فیصد) ایس سی برادری سے ہیں اور رام گڑھ میں کل ایک لاکھ ایک ہزار۳۳۲ ووٹروں کے مقابلے میں۳۰۸۹۰ (۴۸ء۳۰فیصد) رائے دہندگان ایس سی برادری سے ہیں۔
تاہم راجوری، گلاب گڑھ، بدھال، مینڈھر، سرنکوٹ، تھانہ منڈی (جموں ریجن)، گوریز، کوکرناگ، کنگن (کشمیر ریجن) سمیت درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کی مخصوص نشستیں بھی جموں و کشمیر میں اگلی حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں گی۔
ان اسمبلی حلقوں میں درج فہرست ذات کے رائے دہندگان کا فیصد بہت کم ہے۔
جموں و کشمیر میں۹۰؍ اسمبلی حلقے ہیں، جن میں سے ۷ نشستیں درج فہرست ذات (ایس سی) اور ۹درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کے لئے محفوظ ہیں۔
جموں صوبے میں۲۰ نشستیں ایسی ہیں جن کی ایس سی آبادی۱۹سے ۲۶ فیصد کے درمیان ہے اور یہ بڑی آبادی ان حلقوں میں غیر محفوظ امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کرسکتی ہے اور جموں و کشمیر میں اگلی حکومت کی تشکیل میں کسی بھی سیاسی جماعت کی مدد کرسکتی ہے۔
پچھلے اسمبلی انتخابات میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے ۲۸، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ۲۵، جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس (این سی) نے ۱۵؍ اور کانگریس نے۱۲نشستیں حاصل کی تھیں۔
کانگریس نے اس بار انتخابات لڑنے کیلئے نیشنل کانفرنس کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔