سرینگر//
جموں وکشمیر میں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے درمیان رفاقت پاش پاش ہونے کے ساتھ ہی پیپلز الاینس فار گپکار ڈیکلریشن کا قصہ تمام ہوا۔
دونوں جماعتوں نے ایک دفعہ جموں وکشمیر کے خصوصی درجہ کی بحالی کیلئے ایک ہوکر کمر کس لی تھی لیکن اب دونوں ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔دونوں جماعتوں کے قائدین عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی الیکشن مہموں کے دوران ایک دوسرے کو نشانہ بنانے میں کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں۔
دفعہ۳۷۰کی منسوخی کے بعد جموںکشمیر کی سیاست میں اس وقت نئے دور کا آغاز ہوا جب پی ڈی پی ، نیشنل کانفرنس نے ’پی اے جی ڈی‘کا قیام عمل میں لایا تاہم اندرونی خلفشا ر اور خلوص کی کمی اس کے زوال کا باعث بنی ۔
۲۰۲۰کے ڈسٹرکٹ ڈیلوپمنٹ کونسل انتخابات (ڈی ڈی سی) میں پی اے جی ڈی میں شامل چھ پارٹیوں نے متحد ہ طورپر الیکشن لڑا اور اس اتحاد نے ۱۱۰نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔
امسال لوک سبھا انتخابات کے دوران پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کا رشتہ اس وقت ٹوٹ گیا جب دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کے خلاف امیدوار میدان میں اتارے ۔لوک سبھا انتخابات میں پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کی جانب سے مد مقابل امیدوار کھڑا کرنے کی وجہ سے ‘پی اے جی ڈی ’کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی گئی۔
الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے جموں وکشمیر میں اسمبلی انتخابات کے حوالے سے شیڈول جاری کرنے کے ساتھ ہی نیشنل کانفرنس نے پی ڈی پی کے لئے سیٹیں چھوڑنے سے انکار کیا اور دونوں پارٹیوں کے لیڈران کی جانب سے ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔دس سال کے وقفے کے بعد منعقد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے متحدہ طورپر چناو لڑنے کا فیصلہ کیا اور اس میں بھی پی ڈی پی کو باہر رکھا گیا۔
سی پی آئی ایم کو این سی کانگریس اتحاد میں جگہ دی گئی لیکن فاروق عبداللہ کے بھتیجے مظفر شاہ کی سربراہی میں عوامی نیشنل کانفرنس کا بھی پی ڈی پی جیسا ہی حال ہوا۔
سیاسی مبصر پروفیسر نور بابا کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتیں اخلاقیات کے بجائے مفادات سے چلتی ہیں۔انہوں نے کہاکہ ۲۰۱۹میں جب آرٹیکل ۳۷۰کو منسوخ کیا گیا تو این سی اور پی ڈی پی کو یکساں صورتحال کا سامنا تھالہذا دونوں پارٹیوں کو ہاتھ ملانے پر مجبور ہوناپڑا۔
پروفسیر بابا کے مطابق اس وقت اسمبلی انتخابات قریب ہیں اور ہر پارٹی اپنے مفادات کو ترجیح دے رہی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ نشستیں جیتی جا سکیں۔انہوں نے کہا کہ اس بات کا ہمیشہ امکان رہتا ہے کہ دونوں جماعتیں مستقبل میں دوبارہ اکٹھے ہو سکتی ہیں۔انہوں نے کہا’سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا لہذا آج کے حریف کل کے دوست بھی ہو سکتے ہیں۔ ‘