نئی دلی//
گزشتہ چند برسوں سے جموں و کشمیر میں دہشت گرد امریکی ساختہ ایم ۴ کاربائن رائفلوں کا استعمال کرتے ہوئے پائے گئے ہیں اور خاص طور پر کٹھوعہ سمیت حالیہ حملوں کے دوران، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ رجحان ’خطرناک‘ ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ ۲۰۲۱ میں افغانستان سے انخلا کے بعد امریکی فوج کے ’بچا ہوا‘ ہتھیار پاکستانی ہینڈلرز کے ذریعے عسکریت پسندوں تک پہنچے ہیں۔
ایم ۴کاربائن ایک ہلکا پھلکا، گیس سے چلنے والا، ایئر کولڈ، میگزین فیڈ اور کندھے سے چلنے والا ہتھیار ہے جس میں ۱۹۹۴سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ۱۹۸۰ کی دہائی سے اب تک ۵لاکھ سے زیادہ یونٹس کی تیاری کے ساتھ ، ایم ۴ متعدد ورڑن میں دستیاب ہے۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ رائفل میں۷۰۰۔۹۷۰ راؤنڈ فی منٹ کی سائیکلک ریٹ اور ۵۰۰۔۶۰۰ میٹر کی مؤثر فائرنگ رینج ہے۔
ایم ۴ کاربائن رائفلیں۱۹۸۰ کی دہائی میں ڈیزائن اور تیار کی گئی تھیں اور نیٹو نے بڑے پیمانے پر استعمال کی تھیں ، جس میں مبینہ طور پر پاکستانی اسپیشل فورسز اور سندھ پولیس کے اسپیشل سکیورٹی یونٹ سمیت متعدد فوجوں کے ساتھ خدمات انجام دینے والا ایک ورڑن بھی شامل ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس ہے جو جموں و کشمیر میں اپنے مذموم عزائم کو آگے بڑھانے کے لئے ایم ۴ کاربائن رائفلز جیسے جدید ہتھیاروں کے ساتھ دہشت گردوں کی مدد کر رہی ہے۔
بھارتی فوج میں اپنی مدت کار کے دوران جموں و کشمیر میں خدمات انجام دینے والے دفاعی ماہر سنجے کلکرنی کا ماننا ہے کہ امریکی فوج کے بچ جانے والے ہتھیار اب آئی ایس آئی کو مل گئے ہیں، جو ان کا استعمال دہشت گردوں کو تربیت دینے کے لیے کر رہی ہے۔
جموں و کشمیر میں ایم ۴ کاربائن رائفل کی برآمدگی کا پہلا واقعہ ۷ نومبر ۲۰۱۷ کو سامنے آیا تھا ، جب جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کا بھتیجا طلحہ رشید مسعود جموں و کشمیر کے پلوامہ ضلع میں ایک تصادم میں مارا گیا تھا۔
۲۰۱۸ میں کشمیر کے پلوامہ میں سیکورٹی فورسز نے دوسری بار ہتھیار برآمد کیا تھا جب اظہر کے ایک اور بھتیجے عثمان ابراہیم کو ہلاک کیا گیا تھا۔
بعد ازاں۱۱جولائی ۲۰۲۲کو جموں کشمیر کے پلوامہ ضلع کے اونتی پورہ علاقے میں ایک انکاؤنٹر سائٹ سے ایک ایم۴ کاربائن رائفل برآمد کی گئی تھی جہاں جیش محمد کے کمانڈر قیصر کوکا اور ایک دوسرے دہشت گرد کو مار گرایا گیا تھا۔
جموں و کشمیر پولیس کے سابق ڈائریکٹر جنرل شیش پال وید نے کہا کہ دسمبر ۲۰۱۶ سے ستمبر ۲۰۱۸ تک ان کے دور حکومت میں دہشت گردوں نے ایم ۴کاربائن رائفلوں کا بار بار استعمال نہیں کیا۔انہوں نے کہا’’سب سے پہلے میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ڈی جی پی کی حیثیت سے میری مدت کار کے دوران مجھے ایم ۴ رائفلوں کے استعمال کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے افغانستان میں ہتھیار چھوڑنے کے بعد ان کا زیادہ تر نوٹس میں آیا ہے اور انہیں کشمیر میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
حال ہی میں ایم ۴ کاربائن کا استعمال مبینہ طور پر جموں خطے میں تمام بڑے حملوں میں کیا گیا تھا جس میں ۸ جولائی کو کٹھوعہ حملہ بھی شامل تھا جس میں پانچ فوجیوں کو گھات لگا کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
۹جون کو ریاسی حملے میں مبینہ طور پر اس ہتھیار کا استعمال کیا گیا تھا جب دہشت گردوں نے ایک سیاحوں کی بس پر حملہ کیا تھا جس میں نو افراد ہلاک اور۴۱ زخمی ہوگئے تھے۔
دو ہفتے بعد ۲۶ جون کو جموں و کشمیر کے ڈوڈہ ضلع میں ایک انکاؤنٹر میں مارے گئے دہشت گرد کے پاس سے ایک ایم ۴ رائفل کے علاوہ ہتھیاروں اور گولہ بارود کا ایک بڑا ذخیرہ برآمد کیا گیا تھا۔
وید نے یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ ایم ۴ جیسے جدید ہتھیار ہلاکتوں کے امکانات میں اضافہ کرتے ہیں، امید ظاہر کی کہ سکیورٹی فورسز اس چیلنج سے مؤثر طریقے سے نمٹیں گی۔
ان کاکہنا تھا’’مجھے لگتا ہے کہ یہ بلٹ پروف گاڑیوں میں بھی لوگوں کو کمزور بنادیتا ہے۔ یہی خطرہ ہے‘‘۔انہوں نے کہا’’سیکورٹی فورسز اور جموں و کشمیر پولیس کئی سالوں سے اس کا سامنا کر رہے ہیں اور ہم آنے والے وقت میں بھی اس کا سامنا کریں گے‘‘۔
سابق ڈی جی پی نے اس امید کا اظہار کیا کہ افواج ایسی صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے اقدامات کرنے کے قابل ہوں گی جہاں آپ کا دشمن اس طرح کے جدید ہتھیاروں سے لیس ہے۔