پالیمانی الیکشن کا ساتواں اور آخری مرحلہ آج یکم جون کو اختتام کو پہنچ جائے گا۔ تین دن بعد ۴؍جون کو اس ساری انتخابی معرکہ آرائی کے نتائج کا اعلان متوقع ہے۔ کون اس معرکہ آرائی میںسُر خ رئو ہوگا اور کس کے مقدر میں شکست ہوگی کچھ حتمی طور سے کہا نہیں جاسکتا ہے البتہ الیکشن پراسیس کے حوالہ سے صورتحال پر قریبی اور گہری نگاہ رکھنے والوں کی جانب سے جو اعداد وشمارات کا میابیوں اور ناکامیوں کے حوالوں سے پیش کئے جارہے ہیں وہ محض قیاسات اور اٹکلیوں سے عبارت ہے کچھ کہا تو نہیں جاسکتا ہے البتہ اُلجھوں کے انبوہ ضرور نظرآرہے ہیں۔
حکمران جماعت کا مسلسل دعویٰ ہے کہ اب کی بار چارسو پار جبکہ تجزیہ کار حکمران جماعت کو ۲۳۰؍ اور اس کی اتحادی جماعتوںکو ۳۰۔۴۰؍ کے درمیان حلقوں سے کامیابی کا عندیہ دے رہے ہیں۔ اسی طرح تجزیہ کاروں کا دوسرا طبقہ کانگریس کی قیادت میںانڈیا الائنس کو حکمران جماعت کے برعکس اقتدار کے قریب تر قراردے رہے ہیں۔ کانگریس کے ایک سینئر لیڈر کا کہنا ہے کہ الائنس کی جیت کی صورت میں الگے ۴۸؍ گھٹنے کے اندراندروزیراعظم کے عہدے پر نامزدگی کا فیصلہ کیاجائے گا جبکہ حکمران جماعت اپنی تیسری جیت کی صورت میں روایت سے ہٹ کر نئی پارلیمنٹ عمارت سے منسلکہ شاہراہ پر حلف برداری کی تقریب منعقد کرنے کی تیاریوں میں جٹ گئی ہے۔
پارٹیوں کی ان تیاریوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حالیہ الیکشن عوام کی اُمنگوں، ضرورتوں، درپیش مسائل اور معاملات کا باوقار اور بااعتماد حل تلاش کرنے کی سمت میں نہیں بلکہ ایک دھڑا اپنے تحفظ اقتدار کیلئے میدان میںاُترا تھا جبکہ دوسرا حصول اقتدار کیلئے میدان میں ڈٹا رہا۔ حصول اقتدار اور تحفظ اقتدار کی اس جنگ میں نہ صرف عوام کی خواہشات، احساسات ، ضروریات اور دیرینہ اُمنگیں کیجولٹی بن گئیں بلکہ بدکلامی، بے ہودہ اور اخلاقیات سے گرے دعوئوں ، اقلیتوں کے تعلق سے آبادی کے ایک مخصوص فرقے کو نشانہ بنابناکر اس کی کردار کشی کرنے بلکہ ایک عفریت کے طور پیش کرنے، اندھی سیاسی مصلحتوں کے تابع مذہب اور مذہبی جذبات کا بدترین استحصال کرنے، اور مذہب کے نام پر سماج کے مختلف طبقوں کے درمیان ہم آہنگی اور رواداری کو دانستہ طور سے نقصان پہنچانے ، ایسے معاملات کو لے کر ملک کے طول وارض میںالیکشن کی آڑ میں کچھ نئے ریکارڈ بھی قائم کرلئے گئے ہیں۔
بدقسمتی یہ کہی جاسکتی ہے کہ چنائو کمیشن ان سارے معاملات کو دیکھنے، سننے ، محسوس کرنے، مختلف حلقوں کی جانب سے شکایتوں کو سُننے کے باوجود بے عمل اور بے اعتناہی رہا بلکہ کچھ ایک سنگین معاملات پر اس رائے کو بھی پیش کرتا رہا کہ ’’چنائو کمیشن نہیںسمجھتا کہ ایسا کرکے کسی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔اس حوالہ سے قانونی اور آئینی ماہرین اور ناقدین اس با ت پر متفق ہیں کہ چنائو کمیشن سے جس عمل، پہل اور تادیبی کارروائی کی توقع رہی ہے چنائو کمیشن توقعت اور حد سے زیادہ جانبدار ثابت ہوا ہے‘‘۔
اس حوالہ سے سوشل میڈیا پر وائرل ان معاملات کا حوالہ دیا جارہاہے جو اُترپردیش اور چند دوسرے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور جن میں ایک مخصوص اقلیتی فرقے کے ووٹروں نے اپنے چھلنی جسموں کو اس دعویٰ کے ساتھ پیش کیا کہ وہ ووٹروں کی قطاروں میں اپنی باری کا انتظار کررہے تھے لیکن پولیس اور مخصوص پارٹیوں کے ورکروںنے ان کے شناختی کارڈ چیک کرکے انہیں نہ صرف حق رائے دہی سے محروم کیا بلکہ شناختی اور آدھار کارڈ چھین کر ان پر ڈنڈے برسائے، یہ مخصوص معاملات اُتر پردیش کے کئی ایک پارلیمانی حلقوں میںپیش آئے ہیں، پارلیمانی حلقہ جہاں سے اسد الدین اویسی بحیثیت اُمیدوار الیکشن لڑ رہے تھے کی مخالف خاتون اُمیدوار اپنے حامیوں کے ساتھ مسلمان خاتون ووٹروں کی شناخت بھی چیک کرتی پائی گئی جبکہ پولیس اپنی ناک کے نیچے ہورہی اس نسل پرست عمل کا تماشہ دیکھتی رہی ۔
ملک کی ۲۲؍ کروڑ مسلمان آبادی کا محض پچاس فیصد کے قریب ووٹرں ہیں لیکن مشکل سے ہی کسی سیاسی پارٹی بشمول حکمران اتحاد اور اپوزیشن اتحاد نے اپنی طرف سے کسی پارلیمانی حلقے سے کسی مسلمان اُمیدوار کو الیکشن میدان میںاُتارا ہے لیکن اس کے باوجود ملک کی مسلم اقلیت کو الیکشن ریلیوں اور تقریروں کے دوران خاص طور سے نشانہ بنایاجاتارہا، کبھی انہیں اورنگ زیب کی اولاد قراردیاگیا ، کہیںان میںاورنگ زیب اور ٹیپو سلطان کی روح سرائیت کرنے کا طعنہ دیاگیا ، کہیں اذان کولے کر یہ اعلان بھی سناگیا کہ اب اگلے پانچ سال کے دوران مسلمان بھول جائیں گے کہ کہیں اذان بھی ہواکر تی تھی، کیا اس نوعیت کی تقریریں،بدکلامی، اخلاقیات سے گری نازیبازبان اور زبان درازی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں، اس پر چنائو کمیشن کی بے اعتنائی یہ ثا بت کرتی ہے کہ یہ چنائو کمیشن اپنی آئینی اور خودمختار حیثیت کا کہیں سودا کرکے اب تماشائی کاکردارنبھا رہا ہے۔
انتخابی نتائج کس کے حق میں ہوں گے اور شکست کس کے مقدر میں لکھی جائیگی قطع نظراُس کے یہ بات اب قدرے واضح ہوتی جارہی ہے کہ ملک کی گنگا جمنی تہذیبی وراثت، صدیوں سے چلی آرہی فرقہ وارانہ یگانگت، بھائی چارہ اور رواداری کی سطح اب وہ نہ رہیگی جو ملک ہندوستان کا طرۂ امتیاز رہ چکی ہے۔ چاہئے مرکزمیںکوئی بھی اتحاد اقتدار میں آجائے، یہ سارے معیارات اور صدیوں پرانی روایات کا حشر جو ہونے جارہاہے وہ تصورمیں بھی رونگٹے کھڑا کردیتا محسوس ہورہاہے۔
البتہ ملک کے طول وارض میںموجود وہ حلقے جو آئین اور جمہوریت میں اعتماد رکھتے ہیں اس حوالہ سے فکر مند بھی نظرآرہے ہیں اور تشویش میں بھی مبتلا ہیں۔ یہ حلقے ، جوغالباًعددی اعتبار سے فی الوقت اقلیت میںہیں، جو کچھ بھی محسوس کررہے ہیں اور جن خیالات کو زبان دے رہے ہیں اس سے یہ احساس ضرور اُجاگر ہوتا جارہاہے کہ ابھی ملک کے اندر وہ کچھ حلقے اور طبقے موجود ہیں جوآپسی رواداری اور عدم مداخلت کے اصولوں اور آدرشوں کو اہمیت دے رہے ہیں اور خود بھی ان پر عمل پیرا ہیں۔ لیکن اندھی اکثریت جوا ب بتدریج ایک کلٹ کی ہیت اختیار کرتی جارہی ہے کے سامنے خود کو بے بس تصور کررہی ہیں۔