آج لوک سبھا الیکشن کا ساتواں اور آخری مرحلہ ہے… کم و بیش گزشتہ پچاس دنوں میں… ۶ مرحلوں میں کافی کچھ بدل گیا ہے… یا سوچا جارہا ہے کہ بدل گیا ہے… پہلے مرحلے میں جب پہلا ووٹ ڈالا گیا تو…تو’ اب کی بار ۴۰۰ پار‘ کا نعرہ تھا… ۴۰۰ نشستیں حاصل کرنے کا نشانہ تھا… ہدف تھا۔ چلتے چلتے ہدف کب بدل گیا ‘ اس کی جگہ کب مسلمانوں نے لی اور… اور ۴۰۰ کے بجائے وہ نشانہ بن گئے پتہ ہی نہیں چلا… لیکن… لیکن اگر کچھ پتہ چلا تو یہ ایک بات کہ … کہ ’اب کی بار ۴۰۰ پار‘ والوں کو پتہ چلا کہ… کہ’اب کی بار ۴۰۰ پار‘ ممکن نہیں ہے…۴۰۰ کو نشانہ بنایا نہیں جا سکتا ہے…اس کو نشانہ بنانا آسان نہیں ہو گا… اس لئے ایک آسان ہدف چن لیا گیا۔ مسلمانوں کو چن لیا گیا اور… اور مسلمانوں کو وہ سب کچھ سننا پڑا جس کے وہ مستحق نہیں ہیں… بالکل بھی نہیں ہیں… امید ہے کہ … کہ آج الیکشن کے اختتام کے ساتھ ہی مسلمانوں کو سنانے کا سلسلہ بھی ختم ہو جائیگا… اوراس کا بھی اختتام ہو جائیگا… لیکن… لیکن صاحب یہ سوچنے کی غلطی نہ کیجئے کہ… کہ الیکشن کے اختتام کے ساتھ ہی مودی جی کا دور بھی اختتام ہو جائیگا… جیسا کہ اپنے راہل بابا کہہ رہے ہیں… یہ کہہ رہے ہیں کہ ۴ جون کے بعد مودی وزیر اعظم نہیں رہیں گے… نہیں صاحب ایسا سوچنے کی بھی غلطی نہ کیجئے گا کہ… کہ ایسا کچھ ہونے والا نہیںہے اور… اور اس کا اندازہ آپ کو آج شام ایگزٹ پولوں سے بھی ہو ہی جائیگا… ہاں البتہ ایک بات صحیح ہے… سچ ہے … اور وہ یہ ہے کہ ’اب کی پار ۴۰۰ پار‘ممکن نہیں ہے… ایسا ہونے والا نہیں ہے… لیکن صاحب ایسا بھی نہیں ہونے والا ہے کہ… کہ مودی جی جو کنیا کماری دھیان لگانے گئے ہیں … ۴ جون کے بعد انہیں دھیان لگانے کے علاوہ اور کوئی کام کرنے کو نہیں ہو گا …ایسا نہیں ہے ۔اپوزیشن نے محنت کی… خوب محنت کی… ٹکر بھی دی ‘ وہ اشوز بھی اٹھائے جن کا براہ راست تعلق عام لوگوں سے ہے… لیکن صاحب ’انڈیا‘ جیت جائیگا …ہم کچھ نہیں کہیں گے سوائے اس ایک بات کے کہ… کہ’دہلی دور است‘۔دہلی مودی جی کی ہے… گزشتہ دس سالوں سے وہ مودی جی کی ہے اور … اور کم از کم آئندہ ۵ برسوں کیلئے بھی دہلی کے شاہی تخت پر مودی جی ہی براجمان ہو ں گے… کوئی اور نہیں ہو سکتا ہے… بالکل بھی نہیں ہو سکتا ہے ۔ ہے نا؟