پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد ہند پاک میں پیدا کشیدگی‘ جس سے دونوں ممالک میں جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی ‘ کے بعد اب کنٹرول لائن اور بین الاقوامی سرحد پر حالات معمول پر آ رہے ہیں ۔ دونوں ممالک نے جنگ بندی کو ۱۸ مئی تک بڑھا دیا ہے جبکہ ان علاقوں کے رہائشیوں کی گھر واپسی کا عمل بھی شروع ہوا ہے ۔
پاکستان نے بھارت کو پہلگام حملے کے ردعمل میں سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کی ہے جبکہ وزیر خارجہ ‘ جئے شنکر کاکہنا ہے کہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات اور معاملات ’مکمل‘ طور پر دوطرفہ ہوں گے ‘ یعنی وزیر خارجہ کسی تیسرے فریق کی ثالثی کو یکسرد مسترد کررہے ہیں ۔
اس بات کا امکان ہے کہ دونوں ممالک میں تعلقات اُس نہج پر واپس لوٹ آئیں جہاں یہ پہلگام حملے سے پہلے تھے ‘ لیکن اس حملے نے کشمیر کی سیاحت پر جو کارِ ضرب لگائی ہے اس کے اثرات پہلے دن سے ہی دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ کشمیر کے ہوٹل خالی ہیں ‘ سڑکیں جو سیاحوں سے بھریں پڑی رہتی تھیں ‘ آج ان پر اکا دُکا ہی سیاح نظر آ رہے ہیں ۔ڈل میں شکارائیں ہیں ‘لیکن ان میں سیاح نہیں ہیں ‘ شہر و گام میں سیاحوں کو لانے لے جانے والی گاڑیوں کا جیسا پہیہ جام ہو گیا ہے جبکہ سیاحتی مقامات پر ویرانی چھائی ہو ئی ہے ۔
سیاحت جموں و کشمیر کی معیشت کا ایک اہم جزو ہے، جو اس کی مجموعی ریاستی گھریلو پیداوار (جی ڈی ایس پی) میں نمایاں طور پر حصہ ڈالتی ہے۔ اس کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ جی ڈی ایس پی کا تقریباً ۷ فیصد ہے جو ہر سال کروڑوں روپے پیدا کرتی ہے۔ اقتصادی اثرات کے علاوہ، جموں و کشمیر میں سیاحت روز گار کے مواقع پیداکرنے کے علاوہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی، اور علاقائی ترقی کو بھی فروغ دیتی ہے۔
۲۰۲۵ کے آغاز سے ہی توقع کی جا رہی تھی کہ امسال سیاح ریکارڈ تعداد میں کشمیر آئیں گے ۔ اس امید کو اس وقت تقویت مل گئی جب ایک مختصر مدت میں لاکھوں سیاحوں نے سرینگر کے باغ گل لالہ کی سیر کی ۔
حکام کے مطابق اس سال۷ء۶ لاکھ سے زیادہ سیاحوں نے اس باغ کا دورہ کیا۔ اس تعداد میں۲۷ہزار سے زیادہ مقامی لوگ اور ۲۲ سو کے قریب غیر ملکی سیاح بھی شامل ہیں ۔یہ حالیہ برسوں میں باغ گل لالہ کو دیکھنے آنے والوں کی سب سے بڑی تعداد تھی۔۲۰۲۲؍ اور۲۰۲۳ میں، باغ نے ۳لاکھ۶۵لاکھ وزیٹرز دیکھے، اور ۲۰۲۴ میں، یہ تعداد بڑھ کر ۴۵ء۴ لاکھ ہو گئی۔گزشتہ سال صرف کشمیر میںآنے والے سیاحوں کی تعداد ۳۴لاکھ۹۸ ہزار سے زیادہ تھی جس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ ۲۰۲۵ سیاحت کے حوالے سے کیسا رہے گا ۔
لیکن بائسرن پہلگام میں دہشت گردوں کے ہاتھوں ۲۵ سیاحوں سمیت ۲۶؍افراد کی ہلاکت نے صورتحال یکسر بدل کے رکھ دی ہے ۔ اس ایک واقعہ نے کشمیر کی سیاحت کی کمر توڑ رکھ دی ہے اور وادی کی اقتصادیات پر ایک بڑا وار کیا ۔گزشتہ چند برسوں کی محنت پر پانی پھر گیا اور اس اعتماد کو شدید دھچکا پہنچادیا جس کی وجہ سے سیاح اب کشمیر آ رہے تھے اور اسے ایک محفوظ جگہ ماننے لگے تھے ۔
یقینا ۲۲؍اپریل کو ۲۶؍نہتے لوگوں کو ہلاک کیا گیا ‘ لیکن دہشت گردوں کے نشانے پر کشمیر کی سیاحت ‘ یہاں کی معیشت ‘ یہاں کی ترقی اور امن بھی تھا ۔ دہشت گرد اور ان کے آقا ایک پر امن اور ہنستے کھلتے ‘خوشحال اور ترقی کے منازل طے کررہے کشمیر کو دیکھ نہیں سکتے ہیں ۔وہ کشمیر میں بد امنی چاہتے ہیں تاکہ وہ تباہی ‘ بربادی اور دہشت گردی کے اپنے ایجنڈا کی آبیاری کر سکیں ۔
لیکن بائسرن سانحہ پر کشمیر نے جس ردعمل کا مظاہرہ کیا اس سے دہشت گرد اور ان کے آقاؤں کو ایک واضح پیغام مل گیا کہ کشمیر خون خرابہ چاہتا ہے اور نہ وہ اس کی اجازت دے گا کہ اس کے نام پر کسی معصوم کا خون بہایا جائے ۔
جنگ کے بادل چھٹ گئے ہیں ‘ سرحدوں پر حالات معمول پر آ رہے ہیں اور کشمیر اب ملک کی طرف دیکھ رہا ہے اس امید کے ساتھ کہ پورا ملک ایک بار پھر کشمیر کے ساتھ کھڑا ہو جائیگا اور ایک بار پھر ملک کے لوگ یہاں آئیں گے ۔یقینا سیاحت کا کشمیر کی اقتصادات اور اس کی اقتصادی ترقی میں ایک رول ہے ‘ لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں ہے ۔سیاحوں کو واپس لوٹ آنا چاہئے کیوں کہ ان کی واپسی ان دہشت گردوں کو کرارا جواب ہو گا جنہوں نے بائسرن میں سیاحوں کو نشانہ بنایا تھا ۔
یقینا یہ آسان نہیں ہے کیونکہ ۲۲؍اپریل کے سانحہ نے لوگوں کے اذہان پر خوف اور ڈر کے واضح نقوش چھوڑ دئے ہیں ۔اس ڈر اور خوف کو دل سے نکالنے کیلئے جہاں کشمیر کی سیاحتی صنعت سے وابستہ لوگوں کو محنت کرنی ہو گی وہیں جموںکشمیر اور مرکزی حکومتوں کو بھی اس ضمن میں مناسب اقدامات اٹھاکر لوگوں کا یہ کشمیر پر اعتماد بحال کرنا ہو گا ۔انہیں یقین دلانا ہو گا کہ کشمیر میں وہ محفوظ ہیں ‘ کشمیر ان کیلئے محفوظ ہے اور دہشت گردوں کیلئے غیر محفوظ ۔
شہری ہوابازی کے وزیر ‘رام موہن نائیڈو کا کہنا بالکل صحیح اور بجا ہے کہ جس طرح پورا ملک پہلگام دہشت گردانہ حملے کی مذمت میں ایک ساتھ کھڑا رہا اسی طرح جموں وکشمیر کی معیشت کے ساتھ کھڑے رہنے کا وقت آگیا ہے ۔’’کشمیر محفوظ ہے‘جتنا پہلے خوبصورت تھا اتنا خوبصورت آج بھی ہے ، سیاحوں کو یہاں واپس لوٹ آنا چاہئے ۔ پہلگام حادثے کے بعد ہم سب ایک ساتھ کھڑے رہے اسی طرح ہمیں آج جموں وکشمیر کی معیشت کے لئے ایک ساتھ کھڑا رہنا ہے۔‘‘