پہلگام دہشت گردانہ حملے کے ردعمل میں دوسرے فیصلوں کے علاوہ مرکزی حکومت نے پاکستان کے ساتھ ۱۹۶۰ سے جاری سندھ طاس معاہدے(آئی ڈبلیو ٹی) کو معطل کردیا ۔ نئی دہلی نے اسلام آباد پر واضح کردیا ہے کہ جب تک نہ وہ سرحد پار دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کردے گا اور اسے نا قابل واپسی بنائے گا ‘ اس وقت تک سندھ طاس معاہدہ معطل رہے گا ۔
پاکستان نے گزشتہ دنوں بھارت سے درخواست کی کہ وہ معطلی کے فیصلے پر از سر نو غور کرے ‘ لیکن ہمسایہ ملک پر واضح کردیا گیا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے ۔
ملک میں مرکزی حکومت کے اس فیصلے پر اب زیادہ بحث تو نہیں ہو رہی ہے ‘ لیکن جموں کشمیر میں دو سیاسی جماعتوں‘نیشنل کانفرنس اور اپوزیشن پارٹی‘پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی اعلیٰ قیادت ایک دوسرے کے سامنے آگئی ہے ۔
وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی اس ضمن میں ایک دوسرے پر الزامات عائد کررہے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ کاکہنا ہے کہ محبوبہ اپنے بیانات سے پاکستان میں کچھ لوگوں کو خوش کرنا چاہتی ہیں جبکہ محبوبہ کاالزام ہے کہ اس وقت جب ہند پاک میں تعلقات کشیدہ ہیں‘ عمرعبداللہ سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے اشتعالانہ بیانات دے رہے ہیں ۔
عمرعبداللہ جہاں سندھ طاس معاہدے کو جموں کشمیرکے مجموعی مفادات کیخلاف قرار دیتے آئے ہیں وہاں انہوں نے روز گزشتہ بانڈی پورہ کی ولر جھیل پر مجوزہ ولر بیراج(تلبل نیویگیشن پروجیکٹ) کو تعمیر کرنے کی یہ کہہ کر وکالت کی کہ اب جبکہ سندھ طاس معاہدہ معطل ہے ‘اور۱۹۸۷ میں پاکستان کی مخالف کے بعد ولر بیراج کی تعمیر کو روک دیا گیا تھا‘ مرکز کو اس کی تعمیر دو بارہ شروع کرنی چاہئے ۔
تْلبْل نیویگیشن پروجیکٹ میں وْلر جھیل پر ۴۳۹ فٹ لمبی اور ۴۰ فٹ چوڑی بیراج اور نیویگیشن لاک کی تعمیر شامل ہے۔ مرکزی حکومت نے اس منصوبے پر۱۹۸۴ میں کام شروع کیا، لیکن ایک سال بعد پاکستان کے اعتراضات کے بعد اسے روک دیا۔ پاکستان نے ۱۹۸۶ میں اس معاملے کو انڈس واٹر کمیشن میں اٹھایا، جس کے بعد یہ منصوبہ ۱۹۸۷ میں ترک کر دیا گیا۔
وزیر اعلیٰ چاہتے ہیں کہ مرکز اس پروجیکٹ کو دو بارہ بحال کرے ۔گزشتہ روز انہوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا ’’ اگر یہ پروجیکٹ مکمل ہو جائے تو تلبل منصوبہ جہلم دریا کو نیویگیشن کے مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔یہ ہمیں جہلم کو نیویگیشن کے لیے استعمال کرنے کا فائدہ دے گا۔ یہ نیچے کی جانب بجلی کی پیداوار کو بھی بہتر بنائے گا، خاص طور پر سردیوں میں۔ ‘‘
کشمیر میں یہ عام تاثر ہے کہ سندھ طاس معاہدہ، اگرچہ ملک کے بہترین مفاد میں کیا گیا تھا‘لیکن اس نے جموں و کشمیر کو اپنے پانی کے وسائل کے استعمال سے روکا ہے، جو کہ ریاست کی ترقی پر نمایاں اثر ڈال رہا ہے۔ لوگ اس معاہدے کو اپنی کم ترقی کا الزام دیتے ہیں کیونکہ اس نے ان دریاؤں کے پانی کے استعمال کو محدود کر دیا ہے۔جموں و کشمیر کی معیشت بنیادی طور پر زراعت پر منحصر ہے۔ یہاں تقریباً ۷۰ فیصد لوگ اپنی آمدنی کے لیے زراعت پر انحصار کرتے ہیں، براہ راست یا بلواسطہ۔
جموںکشمیر میں پن بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کم سے کم ۲۰ ہزار میگاواٹ ہے جس میں سے ۱۶ ہزار میگاواٹ بیچ کر یو ٹی کی اچھی کمائی ہو سکتی ہے لیکن معاہدے کی وجہ سے پن بجلی صلاحیت کاتجارتی طور پر فائدہ اٹھانا ممکن بن گیا ہے۔
جموں و کشمیر کی حکومت کی دستاویزات میں پیش کردہ دلیل یہ ہے: سندھ دریا کے بیسن کی۲۰ہزار میگا واٹ کی تخمینی صلاحیت (متعین صلاحیت۱۶۴۸۰میگا واٹ) میں ایک بڑی فیصد کا فائدہ ریاست کے لیے نہیں اٹھایا جا سکتا کیونکہ سندھ طاس معاہدہ صرف ایسے پروجیکٹوں کی اجازت دیتا ہے جو دریا کی سطح پر ہیں اور جو پاکستان کے آبی حقوق پر اثر انداز نہیں ہوتے۔اپنے دریاؤں کی ہائیڈرو پاور صلاحیت کو مکمل طور پر استعمال کرنے کے موقع سے محروم ہونے کے نتیجے میں، کشمیر کے لیے سندھ طاس معاہدہ ایک اہم نقصان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
زرعی اور ہائیڈرو پاور میں نقصانات کے علاوہ، ۲۰۰۵ میں ممبئی میں سر رتن ٹاٹا ٹرسٹ اور کولمبو میں بین الاقوامی پانی کے انتظام کے ادارے کی جانب سے شائع کردہ ایک مطالعہ کے مطابق، اس معاہدے کی وجہ سے جموں و کشمیر کا سالانہ تخمینی نقصان۶۵۰۰ کروڑ روپے تھا۔ اس معاہدے نے یوٹی کی زراعت اور بجلی کی پیداوار کے امکانات پر بھی منفی اثر ڈالا ہے، اس مطالعے کے مطابق۔
کشمیریوں نے۲۰۰۲ میں باقاعدہ طور پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اپنے پانی کے وسائل کی تقسیم کی مخالفت شروع کی، جب جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی نے اس معاہدے کے خاتمے کی درخواست کے لیے ایک قرارداد منظور کی۔
جموں کشمیر میں توانائی کی ضرورتوں میں دن بہ دن اضافہ ہو تا جارہا ہے ۔ سرما میں کشمیراور گرما میں جموں صوبے کو بجلی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اس صورتحال کے پیش نظر جموں کشمیر کی سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے سے لڑ جھگڑنے اور سیاست کرنے کے بجائے ایک آواز میں مرکز کے سامنے اپنا کیس مضبوطی سے پیش کرنا چاہئے ۔
معاہدے کی معطلی ایک اچھا موقع ہے اور اس ضمن میں پیش رفت ممکن ہے ۔ اور اسی کوئی سیاسی اشو بنانے کے بجائے جموںکشمیر کی سیاسی جماعتوں کو پہل کرنی چاہئے کیوں کہ بجلی اقتصادی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، کیونکہ یہ پیداوار اور استعمال کے مختلف پہلوؤں کو فعال اور سپورٹ کرتی ہے۔ یہ صنعتوں کے لیے ایک لازمی عنصر ہے، مشینری اور سہولیات کو توانائی فراہم کرتی ہے، اور جدید ٹیکنالوجی کے آلات کے کام کرنے کے لیے ضروری ہے۔
بجلی کی رسائی زندگی کے معیار کو بہتر بناتی ہے اور مختلف سرگرمیوں کو آسان بناتی ہے، جس کا نتیجہ آخرکار اقتصادی پیداواری صلاحیت اور ترقی میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے۔