سرینگر//
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے انتخابی منشور میں کیے گئے وعدے انتخابی قوانین کے تحت ’بدعنوان عمل‘ کے زمرے میں نہیں آئیں گے۔
جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس کے وی وشوناتھن کی بنچ نے کانگریس سے تعلق رکھنے والے امیدوار کے انتخاب کو چیلنج دینے والی چامراج پیٹ اسمبلی حلقہ سے تعلق رکھنے والے ایک ووٹر کی عرضی کو خارج کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔
بنچ نے اپیل خارج کرتے ہوئے کہا کہ اسے موجودہ معاملے میں سوال سے تفصیلی طور پر نمٹنے کی ضرورت نہیں ہے اور قانون کے مذکورہ سوال کو مناسب معاملے میں فیصلہ کرنے کیلئے کھلا چھوڑ دیا ہے۔
واضح رہے کہ سیاسی جماعتوں کو انتخابی منشور میں ’مفت‘ دینے کا وعدہ کرنے سے روکنے کے لئے ایک پی آئی ایل سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
عرضی میں الزام لگایا گیا ہے کہ ۲۰۲۳ کے کرناٹک اسمبلی انتخابات کیلئے کانگریس کے انتخابی منشور میں کئے گئے وعدے عوام کی براہ راست اور بالواسطہ مالی مدد ہیں جو بدعنوان انتخابی عمل کے مترادف ہے۔
وکیل کی یہ دلیل کہ کسی سیاسی جماعت نے اپنے منشور میں جو وعدے کیے ہیں، جو بالآخر عوام کی براہ راست یا بالواسطہ مالی مدد کا باعث بنتے ہیں‘ وہ بھی اس پارٹی کے امیدوار کی جانب سے بدعنوان عمل کے مترادف ہوں گے اور اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔
بنچ نے کہا’’کسی بھی صورت میں‘ان معاملوں کے حقائق اور حالات کو دیکھتے ہوئے، ہمیں اس طرح کے سوال میں تفصیل سے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے مطابق اپیلیں خارج کی جاتی ہیں۔‘‘
چامراج پیٹ اسمبلی حلقہ سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار ششانک جے شری دھرا نے جیتنے والے امیدوار بی زیڈ ضمیر احمد خان کے خلاف انتخابی عرضی دائر کی تھی۔
دھرا نے کہا کہ انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) نے اپنے منشور میں جو پانچ گارنٹیاں دی ہیں وہ بدعنوان عمل کے مترادف ہیں۔