کشمیر میں مختلف سیاسی نظریات کا حامل سیاسی کلچر پروان چڑھ رہا ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس مخصوص سیاسی کلچر کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ فیڈرل کا حصہ بن جانے باالخصوص الحاق کے کچھ برسوں بعد دہلی کی آشیرواد کے ساتھ ایک مخصوص سیاسی مہم جوئی نے کشمیر میں عدم سیاسی استحکام کی ایک نئی بُنیاد ڈالدی جو مستحکم ہوتے ہوئے سیاسی بے چینی، تذبذب ، غیر یقینی اور معاشی بدحالی کا موجب بنتا گیا، اس سیاسی مہم جوئی کو پروان چڑھاتے چڑھاتے کچھ دوسری برائیاں اور بدیاں بھی جنم پاتی رہی، جمہوریت کو غیر ضروری سمجھا جاتا رہا، الیکشن کو فراڈ کا جامہ پہنا کر کشمیر پر میڈ ان دہلی حکومتوں کو مسلط کیا جاتا رہا جبکہ اس سارے عمل کی سرپرستی دہلی کے ہاتھ میں رہی، اپنی کٹھ پتلی حکومتوں اور ان میں شامل مہروں کو استعمال کرتے ہوئے جموںوکشمیر کی آئینی ضمانتوں اور آئینی تحفظات اور جمہوری حقوق کو اس ساری مدت کے دوران چھین لئے جانے کے راستے بھی ہموار کئے جاتے رہے ۔
اور جب ان سیاسی مہم جوئیوں کے انتہائی منفی اور گہرے اثرات کو ملک کے وسیع تر مفادات پر اثر انداز ہوکر مرتب ہوتے دیکھا گیا تو سیاسی اور حکومتی سطح پر دہلی حرکت میںآگئی، معاملات اور بے چینی سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے دہلی نے کبھی سہ رکنی کمیٹی تشکیل کی، کبھی پانچ ورکنگ گروپوں کا قیام عمل میںلایا تو کبھی ماہر معیشت کو جموں وکشمیر کی اقتصادی زبوں حالی اور معاشی بے چینی سے جڑے معاملات کا تفصیلی تجزیہ کرنے پر معمور کردیاگیا۔ لیکن عادت سے مجبور اور روایت کی علمبردار مرکزی حکومت نے اپنے قائم ورکنگ گروپوں یاسہ رکنی کمیٹی اور نہ ہی رنگا راجن کمیٹی کی پیش کردہ سفارشات کو کسی احترام کا قابل سمجھا، عملدرآمد تو دور کی بات رہی۔
اگر چہ اس مدت کے دوران چند ایک مخصوص سیاسی نظریات کی حامل جماعتوں اور ان سے وابستہ افراد نے عسکریت اور علیحدگی پسندی کاراستہ بھی اختیار کیا لیکن بحیثیت مجموعی کشمیرنے الحاق کو چیلنج نہیں کیا بلکہ قدم قدم پر یہی مطالبہ پیش کیاجاتارہا کہ جو آئینی ضمانتیں تمام تر وعدوں کے ساتھ عوام کو دی گئیں ہیں ان کا احترام کیاجائے اور جو جمہوری حقوق اندھی سیاسی مصلحتوں اور سیاسی مہم جوئیوں کے تحت چھین لئے جاتے رہے ہیں وہ حقوق بحال کئے جائیں ۔عوام کی یہ خواہش غیر جمہوری تھی اور نہ ہی غیر آئینی، بلکہ ہر اعتبار سے واجبی ہی تھی لیکن اس خواہش کو باغیانہ قرار دیاجاتا رہا۔
اس حوالہ سے آئین کی دفعہ ۳۷۰؍ کا حوالہ دینا بے جانہیں، مرکز میں کانگریس کے دور اقتدار کے دوران اس مخصوص دفعہ کی بُنیادوں کو تہس نہس ہی نہیں کیا جاتا رہا بلکہ اندر ہی اندر سے اس کو اس قدر کھوکھلا بنایا جاتا رہا کہ مرکز میں نئی بی جے پی حکومت کے اقتدارمیں آتے آتے یہ محض کاغذ کا ایک ناکارہ پرزہ بھی نہ رہ گیا تھا۔ اور اب جبکہ اس دفعہ کا آئینی وجود ختم ہوچکا ہے لیکن مختلف نظریات کی حامل سیاسی جماعتیں اور ان کی لیڈر شپ اس کو لے کر اپنی اپنی سیاسی بازی گری اور سیاسی کرتبوں کا مظاہرہ کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی اندھی دوڑ لگاتے نظرآرہی ہے۔ کوئی اس کی بحالی کی راگنی کاراگ دن رات الاپ رہی ہے تو کوئی اس دفعہ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کرنے کی راگنی کا الاپ ۷x۲۴ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس دوڑ میں کشمیر نشین جماعتیں بھر پور حصہ اداکررہی ہیں۔ دفعہ ۳۷۰ کے تعلق سے اس راگنی کو نہ صرف کشمیر بلکہ ملک کے طول وارض میںسیاسی بلیک میلنگ کے ایک حربے اور ہتھکنڈے کے طور سودا سلف کی مانند بیچا جارہا ہے۔ البتہ کشمیر نشین کچھ ایک سیاسی جماعت سے وابستہ افراد اس کو لے کر ایک نئی طرز اور طرح کی سیاست کی دُکان کھول کر معلوم نہیں کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، مرکز کو بلیک میل کرنے کی کوشش کررہے ہیں یا اس نئی سیاسی دکان کی آڑ میں کسی نئے سیاسی کلچر کو پروان چڑھا کر کشمیر کو عدم سیاسی استحکام، بے چینی اور غیر یقینی صورتحال کے ایک نئے گہرے دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔
کچھ دنوں سے یہ بھی آوازیں آرہی ہیں کہ جموںوکشمیر کا الحاق حتمی اور ناقابل تنسیخ ہے۔ یہ نعرہ دینے والوں سے پوچھنے کا جواب تو ہے کہ الحاق کو کون چیلنج کررہا ہے جس کے چلتے یہ نئے سیاست کار اس نوعیت کا ہر ایک اعتبار سے احمقانہ اور بدبختانہ سوچ سے عبارت نعرہ بلند کررہے ہیں۔ جبکہ تلخ سچ تو یہ ہے کہ اس نوعیت کی نعرہ بازی کی سیاست کے جو علمبردار رہے ہیں اور جنہیں مرکزی سرکار ممنوعہ قراردے کر پابند یوں کی زنجیروں میں جکڑچکی ہیں کی اپنی سرپرستی میں کھولی سیاسی دکان میں شمولیت کی نہ صرف دعوت دے رہے ہیں بلکہ مختلف طریقوں سے حوصلہ افزائی بھی کررہے ہیں۔ حالانکہ مرکزی سرکار اور اس کی سرپرستی میںلیفٹیننٹ گورنر کی قیادت میں یوٹی ایڈمنسٹریشن اس حوالہ سے سارے ایکو سسٹم کو ختم کرنے کے موقف کا بار بار اعادہ کرچکی ہے۔
کشمیر میں امن کو مستحکم کرنے، لوگوں کی معیشت کو بحال کرکے اس میں توازن عطاکرنے اور سب سے بڑھ کر سیاسی نریٹو کے تعلق سے سب کو ایک پیج پر مجتمع کرنے کی کوشش وقت کا ہی تقاضہ نہیں بلکہ خطے کے جیو سیاسی حالات اور تیزی سے بدلتی ترجیحات کے پیش نظر بھی ناگزیر ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اپنا اپنا سیاسی دبدبہ قائم کرنے کیلئے نہ صرف گڑھے مردے اکھیڑنے کے راستے اختیار کئے جارہے ہیں بلکہ کچھ ایسی زبان بھی اختیار کی جارہی ہے جو اس طرح اشارہ کررہی ہے کہ جیسے بخشی دور کو واپس لانے کی منظم کوششیں ہورہی ہیں۔